counter easy hit

سب بے نقاب

آج سے کئی برس پہلے میرے مرشد نے کہا تھا ’’سب کچھ بے نقاب ہوکر رہے گا‘‘۔ دراصل وہ میرے تلخ سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ اگرچہ انہیں انگریزی، اردو، فارسی اور عربی پر دسترس حاصل تھی مگر میرے ساتھ وہ ہمیشہ پنجابی میں گفتگو کرتے تھے۔ انہوں نے قیامِ پاکستان سے پہلے ایم ایس ای کی سرکاری ملازمت بھی کی۔ وہ اٹھارہ برس کے تھے اور علامہ اقبالؒ پچاس سال سے زائد کے ہوں گے جب دونوں کسی کی روحانی شاگردی میں تھے۔ مجھے یہ باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ مرشد کئی مرتبہ مجھے اقبالؒ کی طرف سے دی گئی ہدایات دیتے۔ شاید یہ سب باتیں آپ کو ایسے ہی لگ رہی ہوں مگر اس حقیقت سے انکار کرنا میرے بس میں نہیں کیونکہ روحانی دنیا کے سامنے میں نے لوگوں کو ڈھیر ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کہتے رہے اور ہندوستان پر حکومت کرنے والا مغرور بادشاہ ان تک نہ پہنچ سکا۔ ماضی قریب کا ایک واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب جنرل پرویز مشرف ایم کیو ایم کو پھیلا رہے تھے، پورے پاکستان میں جگہ جگہ ایم کیو ایم کے دفاتر بن رہے تھے، جب گلگت بلتستان اور کشمیر میں ایم کیو ایم سیاست کا حصہ بن رہی تھی تو ایک دن میں نے درویش سے پوچھا کہ جناب! ایم کیو ایم نے راولپنڈی، لاہور، ملتان سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں دفاتر بنا لیے ہیں۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے ’’میں پنجاب میں ان کے قدم نہیں لگنے دوں گا‘‘ میں نے عرض کیا، حضور! ان کے پیچھے جنرل مشرف ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ درویش پوری طرح جلالی ہو گیا اور اسی جلال میں کہنے لگا ’’کون سا جرنیل، یہاں کسی جرنیل کا حکم نہیں چلے گا، یہ میری حدود ہے یہاں صرف میرا حکم چلتا ہے، ہمت ہے تو جرنیل پنجاب کی سیاست میں ایم کیو ایم کو فٹ کر کے دکھائے‘‘۔ وقت گزر گیا اور ایم کیو ایم پنجاب کی سیاست کا حصہ نہ بن سکی۔ اب مجھے یاد آ رہا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ سب کچھ بے نقاب ہو جائے گا۔ اب جب میں سیاستدانوں، افسران اور دیگر لوگوں کے مکر و فریب دیکھتا ہوں تو مجھے رہ رہ کر مرشد کی باتیں یاد آتی ہیں۔

کیا لوگوں کے سامنے یہ باتیں نہیں آ رہیں کہ کس طرح مختلف اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ، کرپٹ لوگوں کا تحفظ کر رہے ہیں۔ اس مرحلے پر مجھے حضرت علیؓ کا ایک فرمان بہت یاد آ رہا ہے کہ ’’خواہشیں بادشاہوں کو غلام بنا دیتی ہیں مگر صبر غلاموں کو بادشاہ بنا دیتا ہے‘‘۔ ہم لوگ بھی کیا عجب ہیں کہ خواہشوں کی تکمیل کے لیے ناانصافی اور ظلم کے نظام کو آباد رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ ذرا معاشرے کا یہ ’’چہرہ‘‘ دیکھئے کہ جب ایک جج ریٹائر ہوتا ہے تو پانچ کروڑ گریجوٹی اور سات لاکھ ماہانہ پنشن ملتی ہے مگر جب ایک ٹیچر ریٹائر ہوتا ہے تو اسے 15لاکھ گریجوٹی اور بیس ہزار ماہانہ پنشن ملتی ہے۔ میرے پاس حقائق پر مبنی یہ ثبوت چند برس پرانے ہیں، ہو سکتا ہے اب وقت کی رفتار نے اس میں اور اضافہ کر دیا ہو۔ اسی طرح ایک اور ’’چہرہ‘‘ اس ملک کی اسمبلیاں ہیں جن میں بیٹھے ہوئے افراد جرائم کو تحفظ دیتے ہیں، خود جرائم میں ملوث رہتے ہیں، ان ایوانوں کے اکثر اراکین لوٹ مار کے حق میں باتیں کرتے ہیں۔ حیرت ہے ایک غریب ملک کے ٹیکس پر چلنے والے یہ ایوان اور ان ایوانوں میں پلنے والے لوگ پاکستان کے غریبوں کا کچھ نہیں سوچتے، موجودہ حکومت تو انصاف کے نام پر آئی تھی، انہوں نے کسی ایک گروپ کو 18 ارب کیوں معاف کر دیئے ہیں۔ ساتھ ہی وزیراعظم آفس میں ریکارڈ جل گیا ہے، چھٹے فلور پر فنانس کے لوگ ہیں۔ اس سے پہلے بھی حکومتیں قرضے معاف کرتی رہی ہیں پچھلے پینتیس چالیس سالوں میں حکمران طبقہ تو لوٹ مار کے باعث خوش ہوتا رہا مگر پاکستان کے آنگن میں غریبوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ برائے نام مذہب کا نام لینے والوں کو حضرت علیؓ کا یہ فرمان کیوں یاد نہیں رہتا کہ ’’زندگی کی اصل خوبصورتی یہ نہیں کہ آپ کتنے خوش ہیں بلکہ زندگی کی اصل خوبصورتی تو یہ ہے کہ دوسرے آپ سے کتنا خوش ہیں‘‘۔

میں جب جھوٹ بولتے ہوئے لوگوں کو دیکھتا ہوں، جب لوٹ مار کرنے والوں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ ہم نے تو ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی، جب لٹیروں کے گرد ان کے حواریوں کا ہجوم ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ نیب انتقامی کارروائی کر رہا ہے، اس پر مجھے حیرت نہیں ہوتی بلکہ فرمانِ رسولﷺ یاد آجاتا ہے کہ ’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ ان کا مقصد ان کا پیٹ ہوگا، دولت ان کی عزت ہوگی، عورت ان کا قبلہ ہوگا، روپیہ ان کا دین ہوگا اور وہ بدترین لوگ ہوں گے اور آخرت میں ان کا حصہ نہیں ہوگا‘‘۔

گزشتہ تین چار روز کا تماشہ آپ کے سامنے ہے، کس طرح ملزم چھپتے رہے، کس طرح ہجوم ان کا محافظ بنا رہا اور پھر کس طرح قانون نے امیر اور غریب میں فرق بے نقاب کیا۔ اظہر صدیق اور آفتاب باجوہ جیسے وکلا یہ کہہ رہے ہیں کہ انوکھی مثال قائم کر دی گئی ہے، عدالتی تاریخ میں یہ مثال نہیں ملتی۔ کچھ نہ کچھ تو ہوا ہے، حفاظتی ضمانتوں کے پیچھے چھپتے ہوئے پاکستانی سیاست دانوں کا ’’چہرہ‘‘ حفاظتی ضمانتوں ہی نے بے نقاب کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر قندیل جعفری کے اشعار نے پوری کر دی ہے کہ

آندھیاں اُس کے تعاقب میں تھیں سرگرمِ عمل

خوف کا اُس کی امیدوں پر اندھیرا چھا گیا

جب سنی قندیلؔ اُس نے رُت بدلنے کی خبر

وہ سیاستدان تہہ خانہ سے چھت پر آ گیا