counter easy hit

پاکستان کے اہم ترین صوبے میں ایڈز کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ۔۔۔۔ وجہ کیا ہے ؟ جان کر آپ کو بھی تشویش ہو گی

کوئٹہ(ویب ڈیسک ) پاکستان کے سب سے کم آبادی والے صوبے بلوچستان میں ایڈز جیسی مہلک بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد 5 ہزار سے تجاوز کرگئی جس کے باعث لوگوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ مرض ملک بھر میں اب تک 6 ہزار 2 سو افراد کی جان لے چکا ہے۔ ایڈز کنٹرول پروگرام کے صوبائی چیف ڈاکٹر افضل خان زرقون نے کوئٹہ پریس کلب میں عالمی دن برائے ایڈز کے موقع پر گفتگو کر کے بتایا کہ صوبے کی مختلف جیلوں میں قید 71 قیدی ایڈز سے متاثرہ پائے گئے۔یہ مرض ملک بھر میں اب تک 6 ہزار 2 سو افراد کی جان لے چکا ہے جس میں سے 2 31 اموات صرف بلوچستان میں ہوئیں۔انہوں نے بتایا کہ اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں اس قاتل بیماری کےبارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ڈاکٹر افضل خان زرقون کا مزید کہنا تھا کہ ایک ہزار ایک سو 34 رجسٹرڈ مریضوں میں سے 9 سو 11 مریضوں ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کی گئی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد ایک ہزار 33 جبکہ تربت میں 3 سو ایک ایڈز کے مریض پائے گئے۔اس کے علاوہ جن علاقوں میں ایڈز سے متاثرہ افراد موجود ہیں ان میں قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی، گوادر، لورالائی، لسبیلہ، نوشکی، قلعہ عبداللہ، اور پشین شامل ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئٹہ اور تربت میں مجموعی طور پر 4 ہزار 4 سو 4 افراد کا ٹیسٹ کیا گیا جس میں سے بدقسمتی سے 71 افراد ایڈز کے وائرس سے متاثرہ پائے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کی وزارت صحت نے کوئٹہ اور تربت میں ایڈز کنٹرول سینٹر قائم کردیے ہیں تا کہ ایڈز کے مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جاسکیں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایڈز پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام عوام میں اس مہلک مرض سے متعلق مکمل آگاہی پھیلانے میں ناکام ہوگیا ہے۔ایڈز کنٹرول پروگرام کے صوبائی چیف نے مزید کہا کہ جیلوں میں قید ایڈز کے مریض تشویش کا باعث ہیں کیوں کہ قیدی عموماً منشیات کے عادی ہوتے ہیں۔ جیسا آپ کو علم ہوگا کہ انسانی جسم میں مختلف بیماروں سے بچنے کے لیے ایک طاقتور دفاعی نظام کام کررہا ہوتا ہے اور ایڈز اسی کو ناکارہ کرتا ہے۔ پاکستان میں ایک لاکھ 26 ہزار افراد ایڈز کے موذی مرض سے متاثر ہیں یا مجموعی آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ اس کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو اس بیماری کے حوالے سے خصوصی توجہ دینی چاہیے ورنہ پورے ملک کا بجٹ بھی اس بیماری کے خاتمے کے لیے کم پڑے گا۔