counter easy hit

نامور صحافی کا وزیراعلیٰ پنجاب کو مشورہ

لاہور (ویب ڈیسک) کسی منچلے نے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ لگائی ہے کہ اب تو وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار قبیلے کے دسویں چیف بن گئے ہیں۔ اب تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان نے کسی عام آدمی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا ہے۔ اب تو ایک سردار کو وزیر اعلیٰ بنانے کی بات ہو گی، نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کہتا تو وہ بھی ٹھیک ہے، مگر عثمان بزدار کے گھر میں یہ سرداری پہلی مرتبہ نہیں آئی، ان کے والد فتح محمد بزدار قبیلے کے چیف تھے۔ یہ درست ہے فتح محمد بزدار کے ایک بھائی سعودی عرب میں مقیم ہیں اور وقتی طور پر یہ سوال اٹھا تھا کہ سردار کی پگ ان کے سر پر رکھی جائے یا عثمان بزدار کے سر پر…… قل خوانی کے موقع پر اس لئے عثمان بزدار کی دستار بندی نہیں ہو سکی تھی، مگر اب بزدار قبیلے کی تمام شاخوں نے انہیں اپنا چیف تسلیم کر لیا ہے۔ ویسے بھی یہ بزدار قبیلے کے لئے ایک اعزاز ہے کہ اس کے پاس پنجاب کی حکمرانی ہے۔ اس سے پہلے شاید اس قبیلے کے لوگوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو کہ انہیں عثمان بزدار کے ذریعے اتنا اہم منصب مل جائے گا۔ ملتان میں پی ٹی آئی کے ورکرز نے وزیر اعلیٰ کو قبیلے کا چیف بنانے پر طنزیہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے نام میں ایک چیف کا اضافہ ہوا تھا تو وہ کارکنوں کو نظر انداز کرنے لگے تھے، اب تو ان کے نام میں دو چیفس شامل ہیں۔اب تو وہ کارکنوں کو بالکل ہی نزدیک نہیں آنے دیں گے۔ حالات اس حد تک جا چکے ہیں کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی شکایات کارکن گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سے کر رہے ہیں۔ ملتان میں گورنر پنجاب کے لئے اس وقت ایک مشکل صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی جب سرکٹ ہاؤس میں کارکنوں نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے بارے میں سخت جملے کہے اور انہیں کارکن دشمن وزیر اعلیٰ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ گورنر صاحب سے ایک دن پہلے وزیر اعلیٰ نشتر ہسپتال ٹو کا افتتاح کرنے ملتان آئے۔ اول تو ان کی تقریب میں کارکنوں کو بلایا ہی نہیں گیا، بعد ازاں کسی جگہ ان کی کارکنوں کے ساتھ ملاقات بھی نہیں رکھی گئی۔ آٹھ ماہ کے عرصے میں وزیر اعلیٰ جب بھی ملتان آتے ہیں، صرف بیورو کریسی کے نرغے میں رہتے ہیں ارکانِ، اسمبلی تک سے ملاقات نہیں کرتے۔ ایک بار تو کارکن باقاعدہ سرکٹ ہاؤس کے گیٹ پر ان کے خلاف دھرنا بھی دے چکے ہیں۔ شائد چودھری محمد سرور پی ٹی آئی ملتان ڈویژن کے صدر اعجاز حسین جنجوعہ کی سربراہی میں کارکنوں کے وفد کی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف شکایات سن کر اندر ہی اندر خوش ہو رہے ہوں، تاہم انہوں نے بظاہر ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ وہ وزیر اعلیٰ کے بارے میں کارکنوں کے خیالات سے اتفاق رکھتے ہیں، بلکہ الٹا وہ وزیر اعلیٰ کا دفاع کرتے نظر آئے۔ انہوں نے عمران خان کا نام لے کر کارکنوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ وہ کارکنوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ان کا حکم ہے کہ کارکنوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے اور ان کے کام بھی کئے جائیں۔ انہوں نے یہ نوید بھی سنائی کہ پی ٹی آئی کے 60 ہزار کارکنوں کو مختلف سرکاری محکموں میں ملازمتیں دی جائیں گی۔ بعد ازاں صحافیوں کے ایک سوال پر انہوں نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی تبدیلی کے حوالے سے دو ٹوک جواب دینے کی بجائے یہ گول مول جواب دیا کہ وزیر اعلیٰ کو ہٹانا صرف وزیر اعظم کا اختیار ہے، اس لئے عثمان بزدار اپنے منصب پر قائم رہیں گے۔ پی ٹی آئی کے مقامی حلقوں کے بقول کارکنوں نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے بارے میں جو احتجاج ریکارڈ کرایا ہے، وہ چودھری سرور کے لئے ایک ٹرمپ کارڈ کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اسے وزیر اعظم عمران خان کے نوٹس میں لا کر پھر کوئی نیا پنڈورا بکس کھول سکتے ہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ قدرت عثمان بزدار پر مہربان ہے، جس دن وہ اپنے قبیلے کے سردار بنے، اس سے ایک دن پہلے انہوں نے ملتان میں نشتر ہسپتال ٹو منصوبے کا افتتاح کیا، یوں ان کا نام تاریخ میں محفوظ ہو گیا۔ 1953ء میں سردار عبدالرب نشتر نے نشتر ہسپتال کے منصوبے کا آغاز کیا تھا اور آج 66 برسوں کے بعد ایک اور سردار نے نشتر جیسے بڑے ہسپتال کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ کسی حکمران سے کوئی ایسا منصوبہ منسوب ہو جائے جس نے صدیوں تک قائم رہنا ہے۔ اس تقریب میں انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ جولائی میں جنوبی پنجاب کے لئے علیحدہ سیکریٹریٹ کام شروع کر دے گا۔ اب اگر یہ کام بھی عثمان بزدار کے ہاتھوں انجام پاتا ہے تو ان کا نام تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہو جائے گا، کیونکہ اس دیرینہ مطالبے کے لئے برسوں سے آواز اٹھائی جا رہی ہے، لیکن شنوائی نہیں ہوئی، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں اگر یہ تاریخی کام بھی ہو جاتا ہے تو وہ ماضی کے وزرائے اعلیٰ کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ اب یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں اور گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے بھی ارکان اسمبلی سے ملاقات کے دوران یہ انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو صوبے میں فعال کردار ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اب وزیر اعلیٰ کا زیادہ تر وقت فیلڈ میں گزرے گا اور وہ مختلف شہروں کا اچانک دورہ کر کے افسران اور محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے، نکمے افسروں کے خلاف فوری ایکشن لیں گے اور اس تاثر کو غلط ثابت کریں گے کہ پنجاب میں حکومت فعال نظر نہیں آ رہی۔گویا وزیر اعظم عمران خان نے شہباز شریف سٹائل کو ضروری سمجھا ہے اور ان کی کارکردگی بڑھانے کے لئے یہ سٹائل اپنانے کی ہدایت دی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے تو پھر انہیں پارٹی کارکنوں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہئے۔ اگر پارٹی کارکن وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے اسی طرح ناراض نظر آئے، جس طرح ملتان کے کارکن ہیں اور ان کے خلاف زبان کھولتے، نعرے لگاتے یا احتجاجی کیمپ لگاتے رہے تو وہ کس طرح ایک عام آدمی کو مطمئن کر سکیں گے؟ انہیں کارکنوں کو اپنی آنکھیں اور کان بنانا چاہئے۔یہ بات اچھی تو نہیں لگتی کہ ایک منتخب نمائندے کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف کے کارکن آئینی طور پر اختیارات سے محروم گورنر کو اپنے مسائل بتائیں اور وزیر اعلیٰ کو کارکن دشمنی کا طعنہ دیں۔ اگر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کارکنوں سے اپنا تعلق مضبوط کریں تو خود ان کی پوزیشن بھی پارٹی کے اندر مضبوط ہو جائے گی۔پی ٹی آئی کے ایک سینئر ترین اور سرگرم کارکن مرزا شاہ رخ نے گورنر پنجاب کے سامنے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف مکمل چارج شیٹ رکھی اور کہا کہ ہم نے اپنی ساری زندگی تحریک انصاف کے لئے وقف کر رکھی ہے، مگر وزیر اعلیٰ ہمیں اچھوت سمجھتے ہیں۔ ملنا ہی نہیں چاہتے، نہ ہی ایسی تقریبات میں بلایا جاتا ہے جس میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے شریک ہونا ہو۔اگر وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو متحرک ہونے کا کہا ہے تو یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ خود عمران خان وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے حوالے سے خود کو دباؤ میں سمجھتے ہیں، اگر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیورو کریسی پر انحصار نہ کریں، کیونکہ بیورو کریٹس ہمیشہ ایک دوسرے کو بچاتے ہیں۔وزیر اعلیٰ کے چھاپوں کو ناکام بنانے میں ان کا کردار بڑا نمایاں ہوگا، کیونکہ ایسے معاملات میں ان کی حتی الامکان یہی کوشش ہوتی ہے کہ وزیر اعلیٰ کو ایسی جگہوں کا دورہ کرایا جائے جہاں سب اچھا نظر آئے۔یہ پارٹی کارکن ہوتے ہیں جو وزیر اعلیٰ کو اصل صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں، اگر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی ان سے دور رہیں گے اور انتظامی افسروں کے حصار میں بند ہو جائیں گے تو ان کا آشیانہ شاخ نازک پر ہوگا، جو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے۔مَیں نے خود پی ٹی آئی کے کارکنوں کا اضطراب اور بے چینی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ یہ لوگ تو بس میٹھے بول اور تھوڑی سی عزت کے منتظر ہوتے ہیں، اگر کوئی رہنما یا حکمران انہیں یہ بھی نہیں دے سکتا تو اسے سیاست کی بجائے کسی اور شعبے میں چلے جانا چاہئے۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تو ویسے بھی بہت سی طاقتوں کے نشانے پر ہیں، کیا وہ کارکنوں کو ناراض کر کے اپنی آخری دفاعی لائن بھی ختم کرنا چاہتے ہیں؟ کاش کوئی انہیں سمجھائے کہ سیاست میں رہنے کے لئے کارکنوں کے دل میں رہنا پہلی شرط ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website