counter easy hit

لبرلز اور مذہبیوں میں پھنسا ہوا ایک نوجوان

یہ کہنا سراسر حقیقت پسندی ہے کہ پاکستان اس وقت کئی سنگین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ کئی مسائل ایسے ہیں جو پاکستان کو دیوالیہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بے روزگاری، کرپشن، تعلیم وغیرہ یہ سب ایسے مسائل ہیں جن کو سوچتے سوچتے عام انسان کسی پاگل خانے میں جانے کے لئے کوالیفائیڈ ہوجاتا ہے۔ مگر ایک مسئلہ ایسا بھی ہے جو پاکستان میں اس وقت ہر دوسرے مسئلے سے بڑا اور سنگین قرار دے دیا گیا ہے۔

اس مسئلے کو دیکھا جائے تو بڑا نہیں مگر اسے بلاوجہ کھینچ کر بڑا بنا دیا گیا ہے۔
منطقی لحاظ سے یہ بات مسمم حقیقت ہے کہ دو فریقین میں ایک تو سچ پر ہوتا ہے مگر اس معاملے میں ہر فریق ہی انا الحق کی صدا لگاتا ہوا نظر آتا ہے۔

اس معاملے کا ایک فریق پاکستان میں بسنے والا وہ طبقہ ہے جو خود کو ’روشن خیال‘ کہتا ہے مگر اس مخلوق کو اردو والا ’روشن خیال‘ کہلایا جانا بلکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ انگریزی کے لفظ ’ لبرل‘ کہہ کر انہیں مخاطب کیا جائے تو اس قدر خوشی سے شرما جاتے ہیں جیسے کسی نئی نویلی دلہن کے سامنے اس کے دلہے کا نام لیا جائے تو وہ شرما جاتی ہے۔

دوسرا فریق وہ ’مخصوص‘ طبقہ ہے کہ جس کی ہر بات ہی ’سر تن سے جدا‘ کے نعرے سے شروع ہوتی ہے۔

ان دونوں فریقین کے فضائل رقم کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کیوں ان کے مابین مسئلہ اب لفظی تکرار سے نکل کر خونی شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہ ایک طرح کا خونی کھیل بن چکا ہے کہ جس میں اختلاف کرنے والے کو ایک فریق کی جانب سے گولی کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا دوسرے فریق کی زہر آلود مہم کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے بعد اختلاف کرنے والا اپنی موت خود ہی مر جاتا ہے۔

ہمارے لبرل حضرات کو لبرل ازم کی دینیات کی پہلی کتاب میں پہلا سبق یہی سکھایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ ہی غلط ہو رہا ہے اور خدا نے اب انہیں اس دنیا میں اس خرابی کا سدباب کرنے کے لئے بھیجا ہے۔

ان حضرات کا اپنا کوئی موقف ہوتا ہی نہیں۔ یہ کچھ ارشادات اپنے سینئر لبرل حضرات سے سنتے ہیں اور پھر انہیں اقوال میں اپنی زہر آلود سوچ والی اختراع کا تڑکا لگا کر اپنا بیان بنا کر فیس بک، ٹویٹر پر ڈال دیتے ہیں۔ ان حضرات کی ذہنی بالیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا سب سے بڑا خواب کسی مسئلے کی بہتری یا تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ فیس بک یا ٹویٹر پر ان کے بیان پر زیادہ سے زیادہ ری ٹویٹ یا لائیکس حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جس نے جس قدر منتازع موضوع پر اختلاف سے بھرپور تلخ جملوں کا استعمال کیا وہ ہی فاتح قرار پاتا ہے۔ بدقسمتی اور نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مخلوق دوسرے فریق کو انہتا پسند ہونے کا طعنہ دیتی ہے مگر کسی موضوع پر کوئی ان سے اختلاف کرنے کی جسارت کر بیٹھتا ہے تو یہ حضرات اپنے حواس کھو کر منطقی دلائل دینے کی بجائے اس قدر تند اور اونچی آواز میں چِلاتے ہیں جیسے اختلاف کرنے والے سے کوئی قتل یا گناہ کبیرہ انجام دے دیا ہو۔

پاکستان میں مذہب ہو یا سیاسی معاملات ہوں، گھریلو مسائل کا موضوع ہو یا پھر معاشرے کے اجتماعی حقوق کی بحث ہو۔ ان حضرات کا سب سے پہلا ہدف ایک ایسی بات کرنا ہوتا ہے کہ جس سے اس گفتگو کے فریقین کے جذبات بُری طرح مجروح و متاثر ہوجائیں۔

یہ حضرات یک جنسی شادی کی مہم پر فیس بک ڈی پی تبدیل کرنا فخر سمجھتے ہیں، باریش اور نمازی کو دیکھ تنقید بھی کرتے ہیں اور مذہبی آزادی کی بات بھی کرتے ہیں۔ ’میرا جسم میری مرضی‘ کو سپورٹ بھی کرتے ہیں اور مردوں کے ذاتی معاملات پر تنقید بھی کرتے ہیں، ’پاکستان مردہ باد اور پختونستان’ کے نعروں کی حمایت سے انکار کرتے ہیں اور پھر اسی تحریک کا دفاع بھی کرتے ہیں، یہ مغربی کلچر کو دیوانہ وار سپورٹ کرتے ہیں اور خود ان کے ساتھ کوئی مغربی کلچر والا حادثہ رونما ہوجائے تو واویلا بھی کرتے ہیں۔ اس سے ملتی جلتی ان لبرلز کی کئی اور نشانیاں ہیں جو یہاں رقم کرنا شروع اگر کیا تو کئی دن گزر جائیں گے۔

اب دل تھام کر اس طبقے کی طرف آتا ہوں جن کی طرف تنقیدی الفاظ لے کر جانے والا عام طور پر زندہ واپس نہیں آتا۔

لبرل حضرات کی طرح ہمارے مذہبی حضرات بھی فیس بک، ٹویٹر پر سرگرم نظر آتے ہیں۔ اور ان کو پہچاننے کے لئے سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ یہ لوگ ہر بات پر فتویٰ دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کسی کو لباس پر جہنم کا ٹکٹ تو کسی کو ایک بیان دینے پر واجب القتل ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

ان کی سب سے خطرناک خوبی یہ ہے کہ یہ لوگ ایک سنی سنائی بات پر بغیر تحقیق کیے کسی دوسرے انسان کی جان لینے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے شام و فلسطین کے حالات کا ذکر کیا جائے تو ماتم کرتے ہیں اور جب یمن میں ہونے والی بمباری کا ذکر ہوتا ہے تو شکر کے کلمے پڑھتے ہیں۔

امریکی صدر بیت المقدس میں سفارت خانہ کھولنے کا اعلان کرے تو یہ لوگ اس پر لعن طعن کرتے ہیں اور وہی امریکی صدر ایران کے جوہری معاہدے کو ختم کرے تو یہ اس کوفیس بک پوسٹوں میں ہیرو بنا لیتے ہیں۔ ان کی ذہنی پسماندگی کو اجاگر کرتی ہوئی یہ مثال اس لیے دی کیوں اس ناچیز کی ان گناہ گار نگاہوں نے یہ منظر دیکھا ہے جس پر افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ چہرے پر چلبلی ہنسی بھی امڈ آئی تھی۔

ان میں سے اکثر تو ہر اخلاقی بُرائی میں سرعام اور براہ راست ملوث پائے جاتے ہیں اور پھر یہی دوسروں کو مذہب کی تلقین کرنے والوں میں اول صفوں کے افراد میں نظر بھی آتے ہیں۔

ان حضرات کی زندگیوں کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ مخالف مسلک و جماعت کے افراد کو لفظی تکرار میں زیرکرنے میں کامیاب ہوسکیں اور اگر لفظوں سے ڈھیر نہ کرسکیں تو ہاتھوں، لاتوں یا پھر بندوقوں کا استعمال بھی کر لیتے ہیں۔

ہر عمر، ہر طبقے، ان پڑھ سے لے کر ماڈرن یونیورسٹیوں کے طلباء تک یہ حضرات ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔

ان لبرل اور مذہبی حضرات میں ایک بات مشترک ہے یہ دوسروں پر اپنا موقف اپنا نظریہ مسلط کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

کہتے ہیں دنیا میں سات بڑے عجوبے ہیں مگر اگر کوئی پاکستان میں ان دو مخصوص طبقوں پر کچھ مطالعاتی تحقیق کا بندوبست کرے تو یقیناً دنیا کے ان عجائبات کی فہرست میں بے شمار عجوبوں کا اضافہ ہوجائے گا۔

ان شخصیات کی کچھ نشانیاں تو خدمت انسانیت کا جذبہ دل میں رکھتے ہوئے آپ تک پہنچا دیں ہیں۔ اگر آپ ان نشانیوں کا حامل کوئی بھی شخص اپنے آس پاس موجود پائیں تو فوراً خاموش ہوجائیں اور اس شخص کو بولنے دیں اور اختلاف کرنے کی جسارت مت کریں ورنہ نقصان کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔