counter easy hit

اپنے والد کے پاوں دھوتا اس کا خیال رکھتا۔آپ یہ بات ذہن میں رکھیں بچوں کو ٹیوٹر‘ سکول یا کالج نہیں پڑھاتے والدین پڑھاتے ہیں‘ والدین اگر بچوں پر توجہ نہ دیں‘ یہ اگر انہیں وقت اور محبت نہ دیں تو آپ انہیں خواہ آکسفورڈ میں داخل کرا دیں یہ تعلیم مکمل نہیں کر سکتے‘ بچوں کو۔۔۔۔۔۔صف اول کے صحافی نے ایسا کیوں کہا3

اپنے والد کے پاوں دھوتا اس کا خیال رکھتا۔آپ یہ بات ذہن میں رکھیں بچوں کو ٹیوٹر‘ سکول یا کالج نہیں پڑھاتے والدین پڑھاتے ہیں‘ والدین اگر بچوں پر توجہ نہ دیں‘ یہ اگر انہیں وقت اور محبت نہ دیں تو آپ انہیں خواہ آکسفورڈ میں داخل کرا دیں یہ تعلیم مکمل نہیں کر سکتے‘ بچوں کو۔۔۔۔۔۔صف اول کے صحافی نے ایسا کیوں کہا

a-successful-business-turned-to-a-looser-and-his-factory-servant-became-a-best-human-being-by-moral-lesson-taken-from-his-life-javed-ch-columns

 

صف اول کے صحافی جاوید چوہدری اپنے کالم “سرمایہ کاری” میں ایک ایسے شخص کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جو سرمایہ دار ہوکر بھی اپنے والد کی خدمت کو اصل سکون سمجھتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ بیٹا فرش پر بیٹھا تھا‘ والد کے پاؤں گرم پانی کی بالٹی میں تھے‘ وہ والد کے پاؤں باہر نکالتا تھا‘ تپائی پر رکھتا تھا‘ روئی سے صاف کرتا تھا‘ سکرب کرتا تھا اور دوبارہ پانی میں رکھ دیتا تھا‘ وہ مساج والا لگ رہا تھا‘ اس نے اگر سوٹ نہ پہنا ہوتا یا اگر مجھے یہ معلوم نہ ہوتا یہ اس دفتر‘ اس کمپنی اور اس فیکٹری کا مالک ہے تو میں اسے ملازم یا مساج والا ہی سمجھتا‘ وہ مالک تھا لیکن وہ زمین پر بیٹھا تھا‘ اس کا والد کرسی پر تھا اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے پاؤں دھو رہا تھا۔

وہ فارغ ہوا‘ اس نے تولیے سے والد کے پاؤں صاف کیے‘ بالٹی اٹھائی‘ باتھ روم میں گیا‘ پانی الٹا‘ہاتھ دھوئے‘ خشک کیے اور میرے سامنے بیٹھ گیا۔میں نے مدت بعد کسی شخص کو اپنے والد کی اتنی خدمت کرتے دیکھا تھا‘ میں حیران بھی تھا اور شرمندہ بھی‘ میرے والد پوری زندگی میرے ساتھ رہے تھے‘ میں ان کی اس طرح خدمت کرنا چاہتا تھا لیکن میں شرمیلے پن اور سستی کی وجہ سے ان کے پاؤں نہ دھو سکا‘ میں مصروفیت کی وجہ سے آخری دنوں میں ان سے روزانہ ملاقات بھی نہ کر سکا لہٰذا میں جب بھی اور جہاں بھی کسی کو اپنے بوڑھے والد کا ہاتھ پکڑے دیکھتا ہوں یا ان کے پاؤں دھوتے یا کندھے دباتے دیکھتا ہوں تو میرے افسوس میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ میں اس وقت بھی دکھی اور خاموش بیٹھا تھا‘ وہ دونوں باپ بیٹا تھوڑی دیر مجھے دیکھتے رہے اور پھر بیک وقت بول پڑے ”جاوید صاحب اصل زندگی یہی ہے“ میں نے چونک کر پہلے بیٹے کی طرف دیکھا اور پھر باپ کی طرف‘ وہ دونوں مسکرا کر میری طرف دیکھ رہے تھے‘ دونوں کے چہروں پر سکون اور خوشی تھی‘ میں نے مدت بعد کسی کے چہرے پر اتنی خوشی اور اتنا سکون دیکھا تھا۔والد نے ہاتھ ملے اور میری طرف دیکھ کر بولا ”میں نے یہ اپنے باس سے سیکھا تھا‘ میں جوانی میں فیصل آباد کی ایک مل میں اکاؤنٹنٹ بھرتی ہو گیا‘ میں مالک کے قریب تھا لہٰذا میری اس سے روز ملاقات ہوتی تھی۔
میں نے دیکھا میرا مالک سرمایہ کاری کے خبط میں مبتلا ہے‘ اس کی جیب میں دس روپے بھی بچ جاتے تھے تو وہ انہیں بھی کاروبار میں لگا دیتا تھا‘ وہ دن رات کام کرتا تھا‘ فیکٹری کے بعد امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس‘ شاپنگ پلازے اور کرائے کے مکان اور اگر وقت بچ جاتا تو وہ یہ وقت گاڑیوں کی خریدوفروخت اور جائیداد کے لین دین میں صرف کر دیتا‘ وہ پیسے بنانے کی مشین تھا‘ وہ ہر ملاقات‘ ہر کام کے بعد سوچتا تھا مجھے اس کا کیا فائدہ ہوا؟ لوگ اس کے بارے میں کہتے تھے وہ پیسوں کے بغیر چھینک بھی نہیں مارتا۔

اسے اگر خارش بھی ہوتی تھی تو وہ خارش پر وقت ضائع کرنے کی بجائے نوٹ گنتا تھا‘ وہ ان کاروباری مصروفیات کی وجہ سے بچوں پر توجہ نہ دے سکا‘ اس نے بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کرایا مگر بچے پڑھ نہ سکے‘ آپ یہ بات ذہن میں رکھیں بچوں کو ٹیوٹر‘ سکول یا کالج نہیں پڑھاتے والدین پڑھاتے ہیں‘ والدین اگر بچوں پر توجہ نہ دیں‘ یہ اگر انہیں وقت اور محبت نہ دیں تو آپ انہیں خواہ آکسفورڈ میں داخل کرا دیں یہ تعلیم مکمل نہیں کر سکتے‘ بچوں کو والدین کی توجہ اور محبت چاہیے ہوتی ہے۔

بچے پھل ہوتے ہیں اور والدین کی محبت اور توجہ سورج اور چاند‘ یہ دونوں جب تک انہیں روشنی نہیں دیتے پھلوں میں اس وقت تک رس نہیں آتا‘ یہ نہیں پکتے‘ میرے سیٹھ کے بچے بھی والد کی توجہ اور محبت سے محروم تھے چناں چہ وہ کچے رہ گئے‘ بڑا بیٹا تعلیم کے لیے امریکا گیا‘ گوری سے شادی کی‘ کرسچین ہوا اور کبھی واپس نہ آیا‘ دوسرا نشے کی لت کا شکار ہو گیا‘ بیٹی نے مرضی کی شادی کر لی‘ والد نے رو پیٹ کر شادی قبول کر لی‘ وہ داماد کو کاروبار میں لے آیا۔

داماد کاروبار اور بیٹی دونوں کو کھا گیا‘ آخر میں نتیجہ طلاق نکلی اور سب سے چھوٹا بیٹا نالائق تھا‘ وہ دن رات فضول اور نالائق دوستوں میں بیٹھا رہتا تھا اور دونوں ہاتھوں سے والد کی دولت اڑاتا رہتا تھا‘ والد روکتا تھا تو وہ اس کے گلے پڑ جاتا تھا اور سیٹھ کے بھائی‘ سالے اور بہنوئی تمام لفنگے اور فراڈیے تھے‘ وہ بار بار اسے دھوکا دے چکے تھے‘وہ ان سے الرجک تھا‘ یہ تمام ایشوز اکٹھے ہوئے‘ سیٹھ سٹریس میں گیا‘ بیمار ہوا اور تیزی سے میڈیکل سٹور بنتا چلا گیا‘۔

اس نے شراب پینا بھی شروع کر دی یہاں تک کہ ایک دن اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فیکٹری کے گیٹ پر گر کر انتقال کر گیا‘ بس سیٹھ کے مرنے کی دیر تھی اس کی ہر چیز تباہ ہو گئی‘ وراثت تقسیم ہوئی اور بچوں نے وہ ساری دولت چند ماہ میں اڑا دی جسے جمع کرنے اور سنبھالنے میں سیٹھ نے پوری زندگی لگا دی تھی‘ اس کی بیگم نے بھی بڑھاپے میں اپنے منیجر سے شادی کر لی‘ بھائیوں کے پاس جو کچھ تھا وہ اس پر قابض ہو گئے‘ جو کچھ نشئی بیٹے کو ملا اس نے وہ نشے میں ڈبو دیا اور جو نالائق بیٹے کے ہاتھ آ گیا اس نے وہ مجروں میں ضائع کر دیا چناں چہ میری آنکھوں کے سامنے وہ ساری ریاست‘ وہ ساری ایمپائر زمین بوس ہو گئی۔

اکاؤنٹس میں تنخواہوں اور بجلی کے بل تک کے پیسے نہ بچے‘ میں نے استعفیٰ دیا اورنوکری چھوڑ کر آ گیا‘ میں جب فیکٹری کے گیٹ سے نکل رہا تھا تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا ”محمد صفدر دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کیا ہے“ میرے اندر سے آواز آئی ”بھلائی کے کام اور نیک اولاد“ چناں چہ میں نے فیصلہ کیا ”میں باقی زندگی دوسروں کے ساتھ بھلائی کروں گا اور اپنی ساری توجہ اپنی اولاد پر دوں گا“۔وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ”جاوید صاحب! آپ یقین کریں میں نے اس کے بعد زندگی میں کبھی ایک پیسے کی بچت نہیں کی۔

میں نے گاڑی تک نہیں خریدی اور گھر تک نہیں بنایا‘ میں جو کماتا تھا وہ میں اپنے خاندان پر لگا دیتا تھا‘ میں اپنے بچوں کو روز سکول چھوڑ کر آتا تھا‘ لنچ بریک کے دوران دوبارہ سکول جاتا تھا اور اپنے بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا کر واپس آتا تھا‘ میرے بچے جانتے تھے اگر یہ کھانا نہیں کھائیں گے تو میں بھی اس دن لنچ نہیں کروں گا لہٰذا یہ میری اور میں ان کی خاطر لنچ کرتا تھا‘ میں روز ان کے جوتے بھی پالش کرتا تھا‘ ان کی یونیفارم بھی دھو کر استری کرتا تھا‘ میں روز انہیں گراؤنڈ بھی لے کر جاتا تھا۔

ان کے ساتھ کھیلتا بھی تھا اور واپسی پر گرم پانی سے ان کے پاؤں بھی دھوتا تھا‘ میں اپنے ہاتھ سے اپنی بیٹی کے سر میں تیل بھی لگاتا تھا اور کنگھی بھی کرتا تھا‘ میری ساری خوشیاں‘ میرے سارے غم میرے بچے تھے‘ یہ ہنستے تھے تو میں ہنستا تھا‘ یہ پریشان ہوتے تھے تو میں پریشان ہو جاتا تھا‘ اس محبت اور اس توجہ نے میرے اور ان کے درمیان ایک مضبوط بانڈ بنا دیا‘ ہم سب ایک یونٹ ہو گئے‘ یہ بڑے ہوئے‘ تعلیم مکمل کی اور اپنے اپنے کام شروع کر دیے‘ اللہ نے کرم کیا اور یہ ترقی کرنے لگے۔

یہ آج خوش حال بھی ہیں اور کام یاب بھی‘ میں آج بھی ان کے ساتھ لنچ کرتا ہوں‘ میں جس دن اس دفتر نہ آؤں میرے بچے اس دن لنچ نہیں کرتے‘ بچوں نے شیڈل بنا رکھا ہے ان میں سے کوئی ایک روز میرے پاؤں دھوتا ہے اور دوسرا شام کو مجھے دباتا ہے اور میری بیٹی روز کھانا پکا کر مجھے بھجواتی ہے‘یہ میری زندگی کی سرمایہ کاری تھی جب کہ میں نے پوری زندگی کسی کے ساتھ زیادتی‘ کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا‘ میں نے جب بھی کی لوگوں کے ساتھ بھلائی کی‘ میرا خیال ہے میری بھلائی میری آخری زندگی کی سرمایہ کاری ہے“۔

وہ خاموش ہو گئے‘ ملازم نے اس دوران میز پر کھانالگا دیا‘ بیٹے نے والد کی ویل چیئر کھینچی‘ میز کے ساتھ لگائی‘ گلے میں نیپکن باندھا اور ہاتھ سے پہلا لقمہ توڑ کر اس کے منہ میں رکھا‘ والد نے اس لقمے کے بعد اپنے ہاتھ سے کھانا شروع کر دیا‘ میں دونوں کو رشک سے دیکھنے لگا‘ والد کے دوسرے دونوں بیٹے بھی اس دوران آ گئے اور وہ بھی کھانے میں شریک ہو گئے‘ ایک بیٹا بینک میں منیجر تھا اور دوسرا ملٹی نیشنل کمپنی میں اکاؤنٹنٹ تھا۔

یہ دونوں روز لنچ بریک کے دوران تیسرے بھائی کے دفتر میں آتے ہیں اور یہ چاروں اکٹھے کھانا کھاتے ہیں‘ میں نے کھانے کے دوران میزبانوں سے ان کی والدہ کے بارے میں پوچھا‘ پتا چلا وہ انتقال فرما چکی ہیں‘ میں دو گھنٹے ان کے ساتھ رہا‘ ملازم بیٹے کھانے کے بعد اپنے دفتروں میں چلے گئے جب کہ بزنس مین بیٹا اور وہ دیر تک میرے ساتھ بیٹھے رہے‘ میں رخصت ہونے لگا تو والد میرا ہاتھ دبا کر بولا ”جاوید بیٹا! انسان کی اصل سرمایہ کاری اولاد اور نیکی ہوتی ہے لیکن زیادہ تر لوگ دولت کی جمع ضرب کے دوران یہ سرمایہ منفی کر بیٹھتے ہیں اور یوں خسارے میں جا گرتے ہیں۔

آپ لوگوں کو بتائیں ان کا اصل سرمایہ ان کی اولاد اور بھلائی ہے‘ یہ ان دونوں قسم کے سرمائے کو کسی قیمت پر ضائع نہ ہونے دیں‘ ان کی زندگی بھی جنت بن جائے گی اور آخرت بھی‘ یہ دونوں جہاں میں سرخرو ہو جائیں گے ورنہ دنیا میں دولت سے بڑی حماقت اور مصروفیت سے بڑی بے وقوفی کوئی نہیں“۔