counter easy hit

مغربی ادب سے ایک چونکا دینے والی تحریر‘

لوگ صبح سے جمع ہونے لگے تھے‘ آنے والوں کی قطار مسلسل لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ بڑے چوک میں ٹریفک کنٹرول کرنے والے خودکار سگنل اور روبوٹ سپاہی موجود تھے‘ مگر ٹریفک نہیں تھا کیونکہ آج عام تعطیل تھی۔ تعطیل کے موضوع پر رات ٹی‘ وی پر ایک فلم بھی دکھائی گئی تھی‘ فلم نے شہریوں کا جوش وخروش بہت بڑھا دیا تھا۔ لوگ دُور دُور سے آرہے تھے۔ خود کار بسیں سیکڑوں سواریاں لاتی جا رہی تھیں۔ آج جشن تھا۔ اب یہ جشن سال میں دو یا تین بار ہی منایا جاتا تھا۔ اِس موقع پر دکانیں بند رہتی تھیں اور لوگوں کو راشن ایک دن قبل دے دیا جاتا تھا۔نوجوانوں اور بزرگوں کے درمیان ایک چھوٹا سا بچّہ بھی کھڑا تھا۔ طویل قطار میں دُور سے اُس کی شکل نظر نہیں آرہی تھی۔ موسم ٹھنڈا تھا۔ سورج نکلے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی اس لیے دھوپ میں ابھی گرمی نہیں تھی۔بچے نے اپنی سرخ نیکر کی جیب سے چیونگم نکالی‘ یہ چیونگم دن بھر استعمال کے باوجود میٹھی رہتی تھی‘ وہ اُسے چبانے لگا۔ سردی سے اُس کی ناک سرخ ہو رہی تھی۔ ”تم اتنی جلدی کیسے جاگ گئے بیٹے؟“ بچے کے پیچھے کھڑے ایک بے حد موٹے شخص نے منحنی آواز میں پوچھا۔”میں بھی سب کچھ دیکھنا چاہتا ہوں۔“ بچے نے اپنے ہاتھ رگڑتے ہوئے کہا۔”تمہاری عمر ابھی اِس ہجوم میں کھڑے ہونے کی نہیں ہے۔ تم جا کر کھیلتے کیوں نہیں؟ اپنی جگہ کسی اور کو دے دو۔“ موٹا بولا۔”بچے کو کھڑا رہنے دو۔“ سامنے سے ایک بوڑھے نے غرّا کر کہا۔ ”دیکھتے نہیں‘ یہ کتنے شوق سے آیا ہے۔“”ٹھیک ہے‘ ٹھیک ہے۔“ موٹا گھبرا گیا۔ ”میں تو صرف اس لیے کہہ رہا تھا کہ اتنا چھوٹا بچہ یہاں کیسے آگیا۔“”مجھے یہ بچہ باذوق نظر آتا ہے۔“ بوڑھے نے شفقت سے بچے کو دیکھا۔’تمہارا نام کیا ہے؟“”ٹام۔“ بچے نے بتایا۔”بہت خوب ۔

بوڑھے نے بلند آواز سے کہا۔ ”دیکھنا‘ یہ ننّا منا ٹام پورے خلوص سے اُس پر تھوک کے دکھائے گا‘ ہے نا ٹام؟“قطار میں کھڑے ئے لوگ ہنسنے لگے پھر باتوں میں مصروف ہو گئے۔ ایک پستہ قد شخص گرما گرم کافی بیچ رہا تھا۔ دس ڈالر فی مگ‘ مگر کافی خریدنے والے بہت کم تھے۔ فاضل رقم تھی کس کی جیب میں؟ حکومت عوام کو ہر ضرور ت فراہم کرتی تھی‘ لیکن کافی جیسی فضولیات کے لیے کسی کو کچھ نہیں ملتا تھا۔ٹام نے نیکر کی جیبوں میں ہاتھ ڈا ل لیے اور آگے جھانک کر یکھا۔ اُسے کے آگے دو ڈھائی سو لوگ ہوں گے اور پیچھے ہزاروں لوگ۔ وہ خوش نصیب تھا کہ صبح صبح یہاں آکر کھڑا ہو گیا ورنہ جگہ نہ ملتی۔ اُس نے بوڑھے سے سوال کیا۔ ”لوگ کہتے ہیں کہ وہ مسکراتی ہے؟“”ہاں۔“ بوڑھے نے زہر خند سے تصدیق کی۔”اور سنا ہے اُسے کینوس پر آئل پینٹ سے بنایا گیا ہے؟“”ہاں۔“ بوڑھے نے کہا۔ ” اِسی باعث مجھے شبہ ہے کہ وہ اصلی نہیں ہے۔ میرے علم کے مطابق مدّتوں قبل اُسے لکڑی پر بنایا گیا تھا۔“ننھے ٹام نے اضطراب اور بے یقینی سے پوچھا۔ ”یہ بھی سنا ہے کہ وہ چار پانچ سو سال پُرانی ہے؟“”شاید اس سے بھی زیادہ پُرانی۔ ویسے نہ معلوم‘ یہ کون سا سَن ہے۔ “ بوڑھا بڑبڑایا۔”یہ بیس سوا کتالیس ہے۔“ ٹام نے تیزی سے جواب دیا۔”ہاںلیکن یہ تو سرکاری اعداد ہیں۔ ہو سکتا ہے ‘ یہ جھوٹ ہو۔ ممکن ہے‘ صحیح سَن تین ہزار ہو یا چار ہزار ہو۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website