counter easy hit

توفیق بٹ کے عمرہ نامے سے ایک منتخب اقتباس

A selected excerpt from Taufiq Butt's Umrah

لاہور (ویب ڈیسک ) مسجد نبویؐ میں قدم رکھتے ہی مجھے اپنے مرحوم شاعر مظفروارثی اور اعظم چشتی یاد آگئے، ان دونوں کے ساتھ کئی برس پہلے میں نے ایران کا سفر کیا تھا، ایسے عاشقانِ رسولﷺ میں نے زندگی میں بہت کم دیکھے، میں اِن دونوں کی مغفرت کی دعا کی، زرداری کے ساتھ عمرے نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر آنے والے وفد کے تمام اراکین کو مسجد نبوی میں ”باب اسلام“ کے مقام پر اکٹھا ہونے کے لیے کہا گیا تھا، اس حوالے سے تین گروپ تشکیل دیئے گئے تھے، ہر گروپ کے ساتھ دو گائیڈ تھے، اِن میں سے ایک گائیڈ کا تعلق سعودی عرب میں واقع پاکستانی سفارتخانے سے تھا، کچھ ہی دیر بعد تینوں گروپ ”باب اسلام“ پر اکٹھے ہوگئے، اب صدر زرداری کا انتظار تھا جو پہنچنے ہی والے تھے، ”باب اسلام“ کے اندر سب نے اُن کے ساتھ ہی داخل ہونا تھا، چند لمحوں بعد وہ تشریف لے آئے، اُن کے ساتھ اچھی خاصی سکیورٹی تھی، ہوسکتا ہے یہ پروٹوکول کے تقاضے ہوں جو ہر حال میں پورے کرنے پڑتے ہوں مگر میں اکثر سوچتا ہوں اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے گھر میں سب کی حیثیت ایک جیسی ہوتی ہے، یہاں کسی سکیورٹی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اکثر لوگوں کی تو یہ خواہش ہوتی ہے اُن کا دم یہاں نکل جائے، وہ اسے اپنی بڑی خوش قسمتی اور اپنے لیے جنت کی ضمانت سمجھتے ہیں، میں نے سوچا مجھے کبھی زندگی میں حکمرانی کا موقع مِلااور اِس دوران حج یا عمرے کی سعادت نصیب ہوئی میں سعودی حکام سے گزارش کروں گاپروٹوکول کے تقاضوں کو پرے پھینک کر مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں، میں ویسے ہی حج اور عمرہ کروں گا جیسے عام لوگ کرتے ہیں، …. بہرحال ”باب اسلام“ میں داخل ہونے کے بعد ایک قطار کے  ذریعے ہم سب روضہ رسولﷺ کی جانب بڑھ رہے تھے، عام لوگوں کو اس دوران ہم سے پرے کردیا گیا تھا، اُس وقت میری کیا کیفیت تھی الفاظ میں اُس کا اظہار ممکن نہیں، میں جب عمرے پر آرہا تھا اپنے والدین کی خدمت میں، میں نے گزارش کی ”زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا، اِس مبارک سفر میں میری موت واقع ہوجائے میری میت پاکستان نہ لائی جائے، مگر میں نے محسوس کیا یہاں موت نہیں ” نئی زندگی“ ملتی ہے،زرداری کے ساتھ آنے والے وفد پر ایک خصوصی شفقت یہ فرمائی گئی ہم سب کو بڑے اطمینان سے روضہ رسول کی جالیوں کو چُومنے دیا گیا، باقی لوگوں کو اِس کی اجازت نہیں تھی، وہ ذرا دور دور سے گزرتے جارہے تھے، البتہ کوئی خوش نصیب وہاں متعین سکیورٹی گارڈ سے بچ بچا کر جالیاں چُوم لیتا اُس کی خوشی دیدنی ہوتی تھی، اِس عمل کے بعدمجھے بھی ایسے ہی محسوس ہورہا تھا دنیا کا سب سے بڑا خزانہ میرے ہاتھ لگ گیا ہے، بلکہ دنیا کیا آخرت کا سب سے بڑا خزانہ میرے ہاتھ لگ گیا ہے، اُس کے بعد ہم سب روضہ رسول کے قریب بیٹھ گئے، ہمارے لیے ایک جگہ مخصوص کردی گئی تھی۔ صدر زرداری چونکہ ہمارے ساتھ تھے لہٰذا سکیورٹی گارڈز نے مکمل طورپر ہمیں اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ اِس موقع پر جناب بابر اعوان نے خصوصی دعا کی۔ وہ دعا نہیں کچھ اور تھا، جسے میں اب تک کوئی نام نہیں دے سکا، وفد کا کوئی رُکن ایسا نہیں تھا جِس پر اس دوران رقت طاری نہ ہوئی ہو، جو رو نہ رہا ہو، خود بابر اعوان بھی دعا فرماتے ہوئے روتے جارہے تھے، اُن کا یہ روپ آج تک میں بُھلا نہیں پایا، میرے دل میں اُن کے لیے ہمیشہ قائم رہنے والی جو عزت اورقدر ہے اُس کی واحد وجہ یہ ہے عمرے کے اِس سفر میں ہرقسم کی دنیا داری سے وہ بے نیاز رہے، اپنی ساری توجہ صرف اور صرف عبادت پر رکھی، ورنہ وفد کے ساتھ آنے والے اکثر اراکین وفاقی وصوبائی وزراءاور ارکان اسمبلی بھی جن میں شامل تھے یہاں بھی اُن کی ”عبادت“ شاید زرداری کے آگے پیچھے پھرنا تھا، میں نے اپنے دل میں بہت سی دعائیں سوچ رکھی تھیں جو روضہ رسول پر میں نے کرنی تھیں، بے شمار دوستوں نے بھی بے شمار دعاﺅں کے لیے کہا ہوا تھا، میں نے اِس ضمن میں ایک فہرست تیار کرکے جیب میں ڈالی ہوئی تھی، میں نہیں چاہتا تھا روایتی انداز میں اُن سے جھوٹ بول دوں کہ ہاں جو دعا آپ نے کہی تھی میں نے کردی تھی، میں نے سوچا بابر اعوان کی دعا ختم ہونے کے بعد میں اپنی دعائیں کروں گا، بابر اعوان کی پونے گھنٹے کی انتہائی رقت آمیز دعا ختم ہوئی تو مجھے لگا جتنی دعائیں میں مانگنی تھیں سب اُنہوں نے مانگ لی ہیں۔ اِس ”مشترکہ دعا کے بعد میرے پاس مانگنے کے لیے اب کچھ نہیں بچا، اُنہوں نے بطور خاص بے نظیر بھٹو کی مغرفت کی دعا کی، اور جس خوبصورت اور جذباتی انداز میں کی مجھے یقین ہے بی بی کی روح کو سکون مِلاہوگا، زرداری بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، اُس موقع پر جس طرح میں نے اُنہیں روتے ہوئے دیکھا، جو سوگواری اُن کے چہرے پر اُس وقت میں نے دیکھی مجھے یقین ہوگیا اُن پر بی بی بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام غلط طورپر لگایا جاتا ہے۔ قتل کی اس سازش میں جو ملوث تھا وہ ان دنوں جس موذی مرض میں مبتلا ہے اور جو بات بات پر مُکا لہرانے والے اس جنرل ریٹائرڈ کی حالت ہوگئی ہے اُس سے اِس بات پر ایمان مزید پختہ ہوگیا ہے کسی کے ساتھ ظلم کا انجام انتہائی ہولناک ہوتا ہے، ”عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں“ جو ہمارے اکثر سیاسی، فوجی اور عدالتی حکمرانوں کو کبھی دیکھائی نہیں دیں، آئندہ بھی شاید دیکھائی نہ دیں جس کے نتیجے میں اُن کا حال وہی ہوتا رہے گا جو جنرل ضیاءالحق کا ہوا، جنرل ریٹائرڈ مشرف کا ہے، نواز شریف اور زرداری کا ہے، …. بابر اعوان سے گزارش ہے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے خصوصی دعا فرمائیں اللہ اُنہیں اچھے انجام سے دوچار کرے، ….روضہ رسول پر حاضری کے بعد جدہ ایئرپورٹ واپس روانگی سے قبل وفد کے اراکین کو ایک گھنٹے کا وقت دیا گیا کہ اِس دوران قریبی مارکیٹوں سے وہ شاپنگ وغیرہ کرلیں، میں نے اپنے عزیزوں کے لیے کچھ تبرکات وغیرہ لینے تھے، میں بھی ایک قریبی مارکیٹ میں چلا گیا۔ واللہ اعلم

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website