counter easy hit

جُنید بغدادی کے بچپن کا اِخلاص پر مبنی ایک سبق آموز واقعہ

A lesson based on the childhood ethics of Jinnah Baghdadi's childhood event

جُنید بغدادی کہتے تھے کہ میں نے اِخلاص ایک حجام سے سِیکھا۔ایک میرے اُستاد نے کہا کہ تُمہارے بال بہت بڑھ گئے ہیں اب کٹوا کے آنا۔پیسے کوئی تھے نہیں پاس میں، حجام کی دُکان کے سامنے پہنچے تو وہ گاہک کے بال کاٹ رھا تھا۔اُنہوں نے عرض کی چاچا اللہ کے نام پہ بال کاٹ دو گے۔ یہ سنتے ہی حجام نے گاہک کوسائیڈ پر کیا اور کہنے لگا۔ پیسوں کے لیے توروز کاٹتا ھوں۔اللہ کے لیے آج کوئی آیا ھے۔ اب انُکا سر چُوم کے کُرسی پہ بٹھایا روتے جاتے اور بال کاٹتے جاتے۔حضرت جنید بغدادی نے سوچا کہ زندگی میں جب کبھی پیسے ھوئے توان کو ضرور کچھ دوں گا۔عرصہ گزر گیا یہ بڑے صوفی بزرگ بن گئے۔ ایک دن ملنے کے لیے گئے واقعہ یاد دلایا اور کچھ رقم پیش کی۔تو حجام کہنے لگا جُنید تو اتنا بڑاصوفی ھوگیا تجھےاتنا نہیں پتا چلا کہ جو کام اللہ کے لیے کیا جائے اس کا بدلہ مخلوق سے نہیں لیتے۔ جبکہ دوسری جانب اخلاص پر ایک اور واقعہ جس میں سیدنا پیر مہر علی شاہؒ نے دعوت نامے کے جواب میں لکھوا بھیجا کہ انہیں حاضری سے معذور سمجھا جائے. اس حکومت کی طرف سے چونکہ ہمارے مذہب اسلام پر پابندی نہیں لگائی گئی لہذا بادشاہ کے لیے دعا گو ہوں. وائسرائے ہند کی تاج پوشی کی اس تقریب میں شمولیت سے انکار پر حاسدین و معاندین نے حکومت کو پیر صاحب کے خلاف اکسایا.پنجاب کے گورنر سر لوئی ڈین نے کہا میری گورنمنٹ پیر صاحب گولڑہ کے انکار کی اصل وجہ معلوم کرے گی. چنانچہ راولپنڈی کے انگریز کمشنر نے آپ کو ریسٹ ہاؤس بلوا بھیجا تو آپؒ نے فرمایا. “میں 3 منٹ کے لیے بھی اپنی اس مسجد کو چھوڑ کر کمشنر کے پاس جانے کے لیے تیار نہیں ہوں. کمشنر صاحب سے کہو کہ اگر اسے کوئی کام ہےتو وہ یہاں آ جائے. اس کے بعد آپ نے بغداد شریف کی طرف منہ کر کے بارگاہ_غوثیت میں استغاثہ پیش کیا. “تیرے مڈھ قدیم دے بردیاں نوں لوگ دسدے خوف چپڑاسیاں دا، “دستگیر کر مہر توں مہرعلی اتے، تیرے باجھ ہے کون اللہ راسیاں دا. ان اشعار کا پڑھنا تھا کہ حضور غوث اعظمؒ کی مدد آ پہنچی اور وہ کمشنر جو آپ کی گرفتاری کے احکامات لے کر آنا چاہتا تھا وہ خود آپؒ کا گرویدہ ہو گیا. حکومت برطانیہ کے فیصلے کے مطابق آپ کو جلا وطن کر دیا جانا تھا. ایک دن ایک مسلمان افسر نے آپؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ بات طے ہو چکی ہے کہ حکومت آپ کو جلا وطن کرنا چاہتی ہے.آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو ہمیں جلا وطن کرنے کے درپے ہیں انہیں اپنے بارے میں علم نہیں کہ قدرت ان کے بارے میں کیا ارادہ رکھتی ہے. چنانچہ اس کے چند سال بعد 18_1914 کے زمانہ میں جنگ عظیم اول چھڑ جانے سے آپ کی جلا وطنی کی تجویز فائل میں ہی دھری رہ گئی اور حکومت برطانیہ کو منہ کی کھانا پڑی.

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website