counter easy hit

ایک مختصر جائزہ

ہم ذاتی طور پر میاں نواز شریف کے طرز حکمرانی اور ان کی جانب سے کیے گئے بعض فیصلوں کے شدید ناقد رہے ہیں، مگر جس الزام کے تحت انھیں نااہل قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کیا گیا ہے، وہ قانون کا معمولی سا علم رکھنے والے طالب علم کے لیے بھی باعث حیرت ہے۔ کیونکہ ان پر نہ تو منی لانڈرنگ کا الزام ثابت ہوسکا اور نہ رمضان شوگر مل ، حدیبیہ پیپر ملز یا جدہ اسٹیل ملز میں کسی قسم کی کسی مالیاتی بے قاعدگی کا کوئی ثبوت ملا۔  بلکہ صرف اس بات پر نا اہل قرار دیا گیا ہے کہ انھوں نے دبئی میں قائم اپنے بیٹے کی کمپنی سے طے شدہ تنخواہ (جو انھوں نے نہیں لی) کو الیکشن کمیشن میں جمع کردہ گوشواروں میں شامل نہیں کیا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کسی کرپشن کے الزام میں نااہل قرار نہیں دیے گئے، بلکہ بعض کی جانب سے الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ طاقتور حلقوں کی نا پسندیدگی کا شکار ہوئے ہیں۔

لیکن حالیہ صورتحال جس کا میاں نواز شریف شکار ہوئے ہیں،کوئی نیا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے، بلکہ ہماری پیچیدہ سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین باب چلا آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان سے میاں صاحب تک 70برس کی تاریخ میں کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت مکمل نہیں کرسکا ہے۔ اس صورتحال کے پس پشت جہاں ایک طرف ریشہ دوانیاں ہیں، وہیںدوسری طرف سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی غلطیوں ، کوتاہیوں اور غلط حکمت عملیوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ جنہوں نے پارلیمان کو اپنے مقاصد کے لیے تو استعمال کیا، لیکن اسے بااختیار بنانے پر کبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ بیشتر وزرائے اعظم نے اپنے اقتدار کی لڑائی تو لڑی، لیکن پارلیمان کی بااختیاریت کی لڑائی نہیں لڑی۔ بلکہ اکثراس کے ذریعے غیر جمہوری قوتوں کی خواہشات کی تکمیل کی، مگر اس تابعداری کے باوجود انھیں جونیر کلرک سے بھی بدتر انداز میں عہدے سے برطرف کیا گیا۔

اس تناظر میں اگر ایک  سرسری نظر پاکستان کی 70 برسوں پر محیط سیاسی تاریخ پر ڈالیں تو بہت تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ اس عمل میں اگر ایک طرف برطانیہ کی تربیت کردہ بیوروکرویسی نے اپنے پہلے سے ترتیب کردہ ڈیزائینز پر عمل کے لیے تگ و دو کی۔ وہیں سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان کی بانی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی کوتاہ بینی اور سیاسی فکری انتشار نے جمہوری اقدار کے پنپنے کی راہ میں روڑے اٹکائے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ بھان متی کا کنبہ تھی۔ جس میں بھانت بھانت کے لوگ تھے، جو قیام پاکستان کے بارے میں مختلف فکری رجحانات میں مبتلا تھے۔ بیشتر رہنما اور کارکنان ایسے تھے، جو تہذیبی نرگسیت میں مبتلا نئے ملک کو تھیوکریٹک ریاست بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔گنتی کے چند رہنما اور کارکنان بانی پاکستان کے تصور پاکستان کو سمجھتے تھے اور اسے ایک جدید وفاقی جمہوریہ بنانے کے خواہشمند تھے۔

اس کے علاوہ مغربی اور سابقہ مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادتوں کے درمیان سیاسی فکر اور نظریات میں واضح فرق موجود تھا۔ بنگالی سیاستدانوں کی اکثریت کا تعلق مڈل کلاس سے تھا اور جو جدید دور کی سیاست کی نزاکتوں کو بخوبی سمجھتے تھے، جب کہ مغربی پاکستان جس خطے پر قائم ہے، وہ صدیوں سے قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے بارے میں غیر واضح بلکہ سطحی اپروچ رکھتا ہے۔ اس میں ان نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، جو ایک جمہوری معاشرے کی ضرورت ہوتے ہیں۔

اس بات کے ثبوت میں درجنوں کتابوں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے کہ روز اول ہی سے پاکستان کو گورنر جنرل ہاؤس اور سیکریٹری جنرل کے سیکریٹریٹ سے چلانے کا رواج عام ہوا ۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم کمزور سیاسی پوزیشن رکھنے کی وجہ سے بیوروکریسی پر اندھا اعتماد کرنے پر مجبور تھے۔ انھیں اسی لیے وزیر اعظم بنایا گیا تھا، تاکہ ان کی کمزور سیاسی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، معاملات پارلیمان کے بجائے تاج برطانیہ کے نمایندوں کے کنٹرول میں رکھے جاسکیں۔ کیونکہ حسین شہید سہروردی مرحوم سمیت کوئی بھی مقامی سیاسی رہنما، پارلیمانی روایات کے خلاف اقدامات پر ڈٹ سکتا تھا۔ پاکستان میں حکمرانی کے حوالے سے اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کا صدر آزادی کے بعد وزیراعظم بننے کو ترجیح دیتا ہے، جب کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا سربراہ گورنر جنرل بننے کو۔ جس سے آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے مزاج کا صاف طور پر اندازہ ہو جاتا ہے۔

بیوروکریسی کی ریشہ دوانیاں اپنی جگہ ،لیکن گورنر جنرل ہاؤس کو حاصل اختیارات بھی پارلیمانی جمہوریت کے روایات کے خلاف تھے۔ قائد اعظم کی زندگی ہی میں اختیارات کی رسہ کشی شروع ہوگئی تھی، گو کہ معاملات اس حد تک سنگین نہیں ہوئے تھے کہ سیاسی حکومتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا۔ معروف دانشور حمزہ علوی لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے دورحکومت میں دو مرتبہ استعفیٰ پیش کیا، جسے قبول نہیں کیا گیا ۔ اس کے علاوہ وہ اپنے وزرا کے انتخاب میں بھی لاچار و بے بس تھے۔ جب سابق بیوروکریٹ ملک غلام محمد گورنر جنرل بنے تو معاملات کلی طور پر بیوروکریسی کے ہاتھوں میں چلے گئے۔

ریاست کی فیصلہ سازی اور انتظامی ڈھانچے پر بیوروکریسی کی گرفت اور کنٹرول کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ لیکن جو غلطیاں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں سے سرزد ہوئیں، انھیں عام طور پر بیوروکریٹس نما دانشور سیاسی جماعتوں کی نااہلی اور تحقیر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن سیاسی عمل کی بہتری کے حوالے سے مثبت تنقیدی جائزہ بہت کم لیا گیا ہے۔ اگر کسی نے لینے کی کوشش کی ہے، تو اس پر اسٹبلشمنٹ کے پروردہ ہونے کا الزام عائد کرکے زباں بندی کی کوشش کی گئی۔

اب اگر پاکستان میں جمہوری سیاست کو نقصان پہنچانے والے دیگر عوامل پر غورکیا جائے، تو جمہوریت کی ریل کو پٹری سے اتارنے میں جہاں بیوروکریسی اور ایک مخصوص اشرافیہ کا کلیدی کردار ہے، وہیں مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے۔ بنگالیوں کی عددی اکثریت کو کم کرنے کے لیے Parityکے اصول کو قبول کرنا اس مقصد کے لیے مغربی پاکستان کے وفاقی یونٹوں کی سیاسی، انتظامی اور ثقافتی حیثیت کو ختم کرنے کی مذموم سازش کا حصہ بننا۔ آمروں کی حمایت اور انھیں سیاسی چھتری فراہم کرنا۔ جمہوری اداروں کو مضبوط و مستحکم بنانے کے بجائے پہلے سے موجود اداروں کو کمزور کرنا۔  پارلیمان کو غیر ضروری طور پر غیر فعال رکھ کر اہم فیصلے بالا ہی بالا کرنے کے رجحان کو فروغ دینا۔ مقامی حکومتی نظام کی حوصلہ شکنی کرنا، جو نئے سیاسی کیڈر پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ وہ غلطیاں اور کوتاہیاں ہیں، جن کی وجہ سے بیوروکریسی کے ہاتھ مزید مضبوط ہوئے اور وقت گذرنے کے ساتھ وہ مکمل طور پر ریاستی پالیسی پر حاوی آگئی۔

اس ملک کے جمہوریت نواز حلقوں کومیاں صاحب کی طرز حکمرانی کے بجائے ان کے بعض اقدامات سے شدید اختلافات رہے ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔ 1،انھوں نے پارلیمان کو وہ اہمیت نہیں دی جو دی جانی چاہیے تھی۔ بلکہ بیشتر فیصلے بالاہی بالاکر کے پارلیمان کی اہمیت کو خود ہی کم کیا۔ 2، مقامی حکومتی نظام کو پروان چڑھانے کے بجائے اسے حتیٰ الامکان نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔3،خطے کی حساس صورتحال کا ادراک نہیں کیا۔ اسی لیے اپنے پورے دور میں کوئی وزیر خارجہ مقررنہ کر کے خارجہ پالیسی پر غیرسیاسی قوتوں کو حاوی آنے کا موقع فراہم کیا۔

4، دہشت گردی کے بارے میں اپنے ابتدائی دور میں گومگو کی پالیسی اختیار کیے رکھی، جب دباؤ بڑھا اور فوج نے مختلف آپریشنوں کی منصوبہ بندی کی، تو بادل ناخواستہ ان آپریشنوں کو قبولیت بخشی۔ یہی کچھ معاملہ کراچی آپریشن کے سلسلے میں سامنے آیا۔ ستمبر2013میں جب کراچی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، تو اس آپریشن کی غیر جانبدارانہ انداز میں مانیٹرنگ کے لیے ایک کمیٹی کا تصور خود مسلم لیگ نے پیش کیا، مگر چار برسوں کے دوران مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا اور سندھ میں سیاسی جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے والی قوتوں کے ہاتھ مضبوط کیے۔ یہ محض چند واقعات ہیں، جو جمہوری سوچ رکھنے والے حلقوں کو مایوس کرنے کا باعث بنے، لیکن ان غلطیوں کے باوجود یہ حلقے میاں صاحب سمیت ہر منتخب حکومت کے غیر جمہوری طریقے سے اقتدار سے ہٹائے جانے کے مخالف ہیں، مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website