تحریر : اظہر اقبال مغل
جب انسان نے زمین پر قدم رکھاتو وہ کچھ نہیں جانتا تھا نہ لباس کا پہننے کا پتہ تھا نہ کھانے پینے کا لیکن جس طرح وقت گزرا انسان نے 
اللہ کا پیغام ایسے ظالم لوگوں تک پہنچا سکیں لیکن اس طرح کے ظالم لوگ آج بھی اس دنیا میں موجود ہیں۔اگر آج کے موجودہ دور کا زمانہ جہالت کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو کوئی خاص فرق نہیں اس دور میں بھی دولت مند غریب کو دبا کر رکھتا تھا آج بھی دبا کر رکھتا ہے بس طریقہ بدل گیا ہیآج کے حکمران غریبوں کے لیئے قانون سازی تو کرتے ہیں لیکن اس پر عمل بہت کم ہوتا ہے بلکہ دیکھاجائے تو یہ دور زمانہ جہالت سے بھی بدتر ہے بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کے گھروں پر بااثر افراد نے قبضہ جما رکھا ہے لیکن وہ بیچارہ غریب انسان چھڑا نہیں سکتا کیوں اس میں اتنی طاقت ہی نہیں کئی غریب لوگ ایسے ہیں جن کی بہن بیٹوں کی عزتوں سے سرعام کھیلا جا رہا ہے اور وہ چپ رہنے پر مجبور ہیں۔جن میں سے کچھ لوگوں نے ہمت کی کیس کیا لیکن آج لوگ آزاد گھوم رہے ہیں آج کے دور میں بھٹہ مزدروں پر تو قانون سازی کی جاتی ہے۔

جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس کہہ گئے لوگ سیانے
یہ اس دور ک ا کڑوا سچ ہے کوئی مانے یا نہ مانے
کمزور اور غریب انسان تو ہے جگہ ہی ذلیل خوار ہو رہا ہے اس کو ہر جگہ ہی دبایا جاتا بہت سے نو جوان ہیں جو کہ ڈگڑیاں ہاتھوں میں لیئے گھوم رہے ہیں ان کے پاس رشوت دینے کے پیسے نہیں ہیں مجبورا اپنی قابلیت سے کم درجے کی نوکری کرنے پر مجبور ہیں موجودہ دور میں جو کالا بازار گرم ہے اس کو ٹھنڈا کرنا بہت مشکل ہیں کیونکہ اب کوئی غلط کام ہمیں لگتا ہی نہیں ہے جس جگہ انصاف نہ ہو وہاں حالات تبدیل نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی طرف سے عذاب ہی نازل ہوتا ہے۔ آج کے موجودہ دور میں دیکھیں تو کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ مہذب قومیں اچھی سوچ سے بنتی ہیں ظلم زیادتی سے نہیں جب تک جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والا قانون تبدیل نہیں ہو گا کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی تبدیلی تب ہی آئے گی جب قانون کی پاسداری ہو گی امیر غریبی کا فرق بہت بڑھ جائے گا اور انصاف صرف امیر کو ہی ملا کرے گا۔
غریب انصاف سے محروم ہوجائے گا آج امیر اور زیادہ امیر ہو رہا ہے اور غریب کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں بے شمار قیدی جیلوں میں اس لیئے سزا اکاٹ رہے ہیں کہ ان کے پاس جرمانہ دینے کے پیسے نہیں اور آج بھی وہ کال کوٹھریوں میں سر رہے ہیں غریب ہونا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن آج گریب کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اسی لیئے ہر بندہ امیر ہونے کے خواب دیکھتا ہے اور ہر جائز ناجائز طریقہ سے دولت حاصل کرنے کی دُھن اس پر سوار ہوتی ہے کیوں کہ اس معاشرہ نے اسے سوائے نفرت محرومی کے اسے کچھ نہیں دیا ہوتا پختہ دھن کے مالک تو حالات سے مقابلہ کرتے ہیں لیکن بعض نا پختہ ذہن رکھنے والے دولت کمانے کے لیئے غلط ذرائع کا استعمال کرتے ہین جس سے معاشرہ میں اس قدر بگاڑ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے یہ سب امیری غریبی کے فرق کا ہی تحفہ ہے آج اگر امیر 








