counter easy hit

یوٹرن کے لیے جواز پیش کرکے اور اس فعل کو قابل فخر بنا کر عمران خان دراصل اپنے کس مشن کی تکمیل چاہتے ہیں ؟ صف اول کے صحافی نےاصل وجہ کا انکشاف کردیا

لاہور(ویب ڈیسک)حکومت کو سو دن پورا ہوا چاہتے تھے کہ پرسوں جمعہ کے روز وزیراعظم عمران خان نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کارکردگی پیش کرنے کی بجائے تحکم اور یقین کے ساتھ اپنی لیڈر شپ کا فلسفہ بیان کر دیا۔۔۔ کہا جو یوٹرن نہ لے وہ لیڈر کہلانے کا مستحق نہیں۔۔۔ نپولین نامور کالم نگارعطاالرحمٰن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ اور ہٹلر نے یوٹرن نہیں لیے۔۔۔ شکست سے دوچار ہوئے۔۔۔ ’مسٹر یوٹرن‘ جناب عمران کا دوسرا نام یا القاب خاص بن چکا ہے۔۔۔ جسے معلوم ہوتا ہے انہوں نے بخوشی بلکہ فخر کے ساتھ سینے کا تمغہ یا ماتھے کا جھومر بنا لیا ہے۔۔۔ اور نپولین اور ہٹلر کی مثالیں پیش کر کے اپنے تئیں اس کا تاریخی اخلاقی جواز بھی ’’مہیا‘‘ کر دیا۔۔۔ کہا جاتا ہے نپولین اور ہٹلر دونوں کو روس کے General Winter نے انجام سے دوچار کیا تھا۔۔۔ یعنی جس ملک کو جوع الارض کی جارحیت کے ساتھ فتح کرنے کے لیے انہوں نے اپنی اپنی باری پر پوری فوجی قوت کے ساتھ یلغار کی وہاں غیر معمولی طور پر پائی جانے والی سردی نے ان کی افواج قاہرہ کو یخ بستہ ہلاکتوں میں ڈبو دیا۔۔۔ زیادہ تر حملہ آور فوجی زندہ حالت میں اپنے اپنے وطن فرانس اور جرمنی واپس جانے کے قابل نہ رہے۔۔۔ تو کیا جناب عمران گزشتہ تاریخ کے ان دونوں جرنیل نما لیڈروں کی ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے کسی ایسے مشن کی تکمیل چاہتے ہیں جو نپولین اور ہٹلر سے پورا نہ ہو سکا۔۔۔ اسی بنا پر پیپلزپارٹی کے لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے عمران خان اپنی ذات کے اندر ایک ہٹلر کو دیکھ رہے ہیں۔۔۔ جرمنی کے ڈکٹیٹر اور مرد آہن کو جنگ عظیم دوم میں یقیناًنئے پاکستانی وزیراعظم کے الفاظ میں یوٹرن نہ لینے کی وجہ سے منہ کی کھانی پڑی ہو گی لیکن اس کے مقابلے میں جس شخص کو اس محاربہ عظیم کا سب سے بڑا فاتح قرار دیا جاتا ہے وہ برطانیہ کا وزیراعظم سرونسٹن چرچل تھا۔ عمران خان ازراہ کرم یہ بھی بتا دیتے بیسویں صدی کے اس سب سے بڑے انگریز نے اپنے دشمن کو اتنی بڑی جنگ میں شکست فاش سے دو چار کرنے کے لیے کون سے بڑے بڑے یوٹرن لیے تھے۔ اگر جرمنی کے ہٹلر کے مقابلے میں برطانیہ کے چرچل کی واضح اور عالمی سطح پر تاریخی کامیابی کا سبب اس کے یوٹرن تھے تو بعد میں لکھی جانے والی تاریخ کے صفحات پر ان کا ذکر لازماً سنہری حروف میں ہوتا۔۔۔ شاید عمران خاں یا انہیں ہٹلر وغیرہ کی مثالیں سمجھانے والے کسی مشیر کو تاریخ جنگ عظیم دوم کے کسی ایسے باب کی بابت معلوم ہو جس میں چرچل کی زیر قیادت اتحادی فوجوں کی کامیابی کے واحد سبب کے طور پر یوٹرنز کی تفصیل بطور خاص درج کی گئی ہے۔۔۔ ایسا ہے تو ازراہ کرم ہم جیسے نالائق طالبعلموں کی رہنمائی کی خاطر کتاب اور متعلقہ ابواب کا نام بتا دیں۔۔۔ جہاں تک کسی ضروری حکمت عملی یا جنگی سٹریٹجی کے طور پر خاص اور نازک موقع پر یوٹرن لینے کا تعلق ہے تو ایسا اقدام یقیناًچرچل کیا تاریخ عالم کے کئی کامیاب مدبروں اور فاتحین نے کیا ہو گا لیکن اس حربے کو ایک یا دو مرتبہ ہی تو آزمایا جا سکتا ہے۔۔۔ اس کے برعکس اگر یوٹرن کے علاوہ آپ کی سرے سے کوئی کارکردگی نہ ہو تو یہ امر کامیابی نہیں بجائے ’میں ہوں اپنی شکست کی آواز‘ کی گونج بن کر سامنے آئے گا۔۔۔حکومت سنبھالنے کے سو دن پورے ہونے پر ہمارے نئے نویلے وزیراعظم موصوف واقعتا اتنے یوٹرن لے چکے ہیں کہ پرسوں جب انہوں نے فخر کے ساتھ اس پالیسی کو اپنے سر کے تاج کے طور پر پیش کیا تو اس کی بازگشت کے طور پر ٹی وی چینلوں کے اینکر پرسنزکی آوازیں موصوف کے یوٹرنز کی کی لمبی فہرست گنواتے خشک ہو گئیں جبکہ تعداد تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔ یہ یوٹرن ہیں یا موقع پرستی کی درخشاں مثالیں اس کا فیصلہ ملک کے آنے والے حالات کریں گے جنہیں معلوم نہیں عمران خان اپنے اس فاتحانہ انداز سیاست کے تحت کس انجام کو پہنچا دیں گے مگر یہ امر ہمارے خان اعظم کی مجبوری پر بھی دلالت کرتا ہے سو دن بعد ان کے پاس حقیقی کارکردگی کے نام کی کوئی چڑیا نہ تھی جیسے وہ اہل وطن کے سامنے رکھ پاتے۔۔۔ موصوف کے حامیوں کی اس دلیل میں وزن ہے کہ پہلے سو دن کسی حکومت یا اس کے لیڈر کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرنے کے لیے ہرگز کافی نہیں۔۔۔ اس کے لیے کم از کم دو تین سال کی مدت چاہیے۔۔۔ مگر اس مختصر مدت میں آپ کی سوچی سمجھی پالیسیوں کی شروعات تو سامنے آ جانی چاہئیں تھیں۔۔۔ خاص طور پر جب آپ نے گزشتہ 18 اگست کو عنان اقتدار سنبھالنے کے ایک ہفتہ بعد سرعام اعلان فرمایا تھا میری حکومت کے تین ماہ مکمل ہو جانے دیجیے۔۔۔ پوری قوم داد دینے پر مجبور ہو جائے گی کہ ’’مبداء فیض‘‘ سے کیسا لیڈر عطا ہوا ہے۔۔۔ مگر اس دوران آپ نے دیار غیر جا کر بھیک مانگنے، اپنے ملک اور عوام کے مفلوک الحال ہو جانے اور تمام قومی وسائل کے لٹ پٹ جانے کا واویلا مچانے اور یوں بزبان حال کا دنیا بھر میں رحم کی اپیلیں کرنے کے سوا کیا کیا ہے جبکہ اندرون ملک کارکردگی کا یہ عالم ہے آپ اور آپ کے وزیران گرامی کے پاس اٹھتے بیٹھتے اپوزیشن لیڈروں کو کرپٹ، چور، ڈاکو اور لٹیروں کے خطابات اور ان پر دوسرے الزامات کی بارش برسانے کے علاوہ کہنے یا کرنے کے لیے کچھ نہیں۔۔۔ اسی نے پارلیمنٹ کا تقدس پامال اور پوری قومی فضا کو مکدّر بنا کر رکھ دیا ہے۔۔۔ قانون سازی کا کوئی ایک مسودہ، خارجہ پالیسی کے میدان میں قابل ذکر پیش رفت یا داخلی امن و استحکام کو یقینی بنانے کا بڑا اقدام اور وہ بڑی تبدیلی جس کا نعرہ لگاتے لگاتے گزشتہ پانچ چھ سالوں کے دوران آپ کے سانس پھولے جاتے تھے اس کی آنکھوں کو چندھیا دینے والی ایک آدھ جھلک! ۔۔۔ کچھ تو کر دکھایا ہوتا آپ نے! جس نوازشریف کی مذّمت کرتے آپ کے بال سفید ہونا شروع ہو گئے ہیں اس نے 2013ء کو وزیراعظم منتخب ہوتے تین چار اعلان قوم کے سامنے رکھ دیئے۔۔۔لوڈشیڈنگ جس نے پوری قوم کی جانوں کو عذاب میں ڈال رکھا تھا اس کے خاتمے کا آغاز کر دے گا۔۔۔ فوراً شروعات ہو گئیں۔۔۔ ساڑھے چار سال بعد جب نافرمانی کے جرم میں سرزمین وطن کے خودساز اصل حکمرانوں کی ایما پر اسے ایوان اقتدار سے باہر نکالا گیا تو ملک کی معیشت کی رگوں میں دس ہزار میگاواٹ کی اضافی توانائی کا خون دوڑ رہا تھا ۔۔۔ پھر پہلے سو دن کے ابتدائی مراحل میں اس نے دہشت گردی کے جن کو قابو کرنے کے عزم کا اظہار کیا تو عمل بھی شروع ہو گیا۔۔۔ آج ہر کوئی کامیابی کا اعتراف کرتا ہے ۔۔۔ اگرچہ کریڈٹ اس کا وزیراعظم نوازشریف کی بجائے اداروں کو دیا جاتا ہے۔۔۔ لیکن بقول شخصے ادارے ماشاء اللہ اس کے برسراقتدار آنے سے پہلے بھی موجود اور پوری طرح مستعد تھے ۔۔۔ تب دہشت گردی سب کے سروں پر سوار ہو کر تگنی کا ناچ نچا رہی تھی۔۔۔ نوازشریف نے کچھ تو کیا ہو گا جس کے اثرات سے قوم متمتع ہو رہی ہے مگر اجر تمام کا تمام خواص جھولی میں ڈالا جا رہا ہے۔۔۔ کراچی کو ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے عذاب نے جکڑ بندی میں لے رکھا تھا۔۔۔ تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم نے شہر قائد کے باسیوں کو نجات کا یقین دلایا۔۔۔ رینجرز کی مدد حاصل کی ۔۔۔ آج کا کراچی بڑی حد تک بدلا ہوا ہے اس کے عظیم شہری قدرے سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔۔۔ ملکی خزانہ 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی خالی تھا۔۔۔ دوچار ارب ڈالر سے زائد نہ تھے۔۔۔ ریاست بالائے ریاست والوں نے اسے باہر نکال پھینکا تو 24 ارب ڈالر سے کم نہ تھے۔۔۔ مجموعی قومی پیداوار کا تناسب 2 فیصد تک گر گیا تھا اس نے پہلے سو دنوں میں اس کمی کو دور کرنے کا بھی عزم باندھا پھر گراف پانچ عشاریہ چھ کے درمیانی ہدف کو چھو گیا ۔۔۔ سب سے بڑھ کر یہ کہیں بھیک مانگنے نہیں گیا۔۔۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ یقیناًکیا مگر آپ کی طرح اس کام کی مذمت کرنے کا شوروغوغا کر نے کے بعد یوٹرن سے قوم کو شرمسار نہیں کیا ۔۔۔ سعودی عرب کا دورہ بعد میں ہوا۔۔۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم بغیر طلب کئے پہلے پہنچا دی گئی۔۔۔ چین کے صدر جناب شی چن انتخابات میں نوازشریف کی کامیابی کا اعلان ہوتے ہی اسلام آباد پہنچے۔۔۔ سی پیک منصوبے اور پینتالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا مژدہ سنایا۔۔۔ 2015ء میں لمحہ موجود کے اندر دنیا کے سب سے بڑے تعمیراتی منصوبے کو شروع کرنے کا معاہدہ کیا۔۔۔ وہ منصوبہ جسے جاری رکھنے پر آپ مجبور ہیں لیکن نام لیتے شرماتے ہیں۔۔۔ اس دوران یوٹرن کا ایک بھی طعنہ اسے نہ ملا۔۔۔ کرپشن کے الزامات کا ڈھنڈورا ’’اوپر‘‘ والوں کی انگیخت پر آپ نے بلاشبہ بڑی کامیابی کے ساتھ پیٹا۔۔۔ اسی کی پاداش میں حکومت اس کی چھین لی گئی۔۔۔ جیل میں بھی ڈالا مگر ثابت تمام تر مقدمات اور پابند سلسل کرنے کے باوجود تاحال ایک الزام نہیں ہوا۔۔۔ تقابلی جائزے سے چیں بچیں نہ ہوں۔۔۔ جب تک ٹھوس اور پائیدار کارکردگی سامنے نہیں آتی یہ آپ کا پیچھا کرتا رہے گا۔