counter easy hit

زوجہ گراں مایہ

وطن عزیز میں شادمانی کا چرچا ہے۔ عمران خان تیسری مرتبہ گھوڑی چڑھنے کو تیار ہیں۔ رشتہ وہ بھیج چکے۔ بس فریق ثانی کی “نکی جئی ہاں” کا انتظار ہے اور پھر “بینڈ باجا بارات” کا آغاز ہو جائے گا۔

قوم کے کان تبھی کھڑے ہو گئے تھے جب قریباً تین برس ہوئے عمران خان پہلی مرتبہ پاک پتن میں مزار پر پائے گئے۔ اس کے بعد ان کے دائیں ہاتھ کی چھنگلی میں ایک موٹے پتھر پر مشتمل ایک بھاری سی انگوٹھی بھی دکھائی دینی لگی۔ ایک ایسا انسان جس نے اپنی بیشتر عمر مغرب میں گذاری ہو۔ جو پاکستان جیسے ملک میں ماڈرن تہذیب کا چلتا پھرتا اشتہار رہا ہو اس کی ایسی کایا کلپ معنی خیز ہوتی ہے۔ چناچہ اس کے معنیٰ جب عیاں ہوئے تو لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔

سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ عین انتخابات کے سال میں اور چھیاسٹھ برس کی عمر میں آخر انہیں یہ کیا سوجھی؟ ہماری سمجھ میں اس کا جواب کچھ اس طرح سے آتا ہے کہ  غالباً انہیں یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اگر وہ سپریم کورٹ کی اہلیت کے ساتھ ساتھ انتخابات  میں بمع اہل اتریں گے تو ان کی کامیابی کے امکانات واضح ہیں۔ اب ایسا کیوں ہو گا؟  اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں پاکستانی سیاست میں چھائے ہوئے کرداروں کا جائزہ لینا پڑے گا۔

پاکستان کی سیاست میں فی الوقت سب سے کامیاب سیاست دان بلاشبہ نواز شریف ہیں۔ وہ تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہو چکے ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ تینوں مرتبہ اپنی مدت پوری نہ کر پائے۔ تیسرے دور حکومت میں  جب وہ پانامہ کیس بھگت رہے تھے تو ان کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ علیل ہو گئیں۔ نواز شریف کی پارلیمنٹ سے نا اہلیت کے بعد ان کے حلقہ انتخاب سے ان کی بیگم صاحبہ نے انتخاب لڑا۔ یہ انتخاب اصل میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز صاحبہ نے لڑا کیوں کہ بیگم صاحبہ علاج کی غرض سے بیرون ملک تشریف لے گئی تھیں اور بدستور لندن میں زیر علاج ہیں۔ جب سے نواز شریف صاحب کی اہلیہ بیمار پڑی ہیں،  ان کے ستارے مسلسل گردش میں ہیں۔ چناچہ ان کے کیس میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جب تک ان کی بیگم صاحبہ ان کے ساتھ رہیں ان کا ستارہ عروج پر رہا۔

پاکستان کی سیاست میں دوسرے کردار جناب آصف علی زرداری ہیں۔ آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ پانچ برس اس ملک کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور ان کی پارٹی نے گذشتہ پانچ سالہ دور حکومت مکمل کیا۔ یہ اور بات کہ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ آصف علی زرداری محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے شوہر ہیں۔  آپ کا دور عروج آپ کی زوجہ کے انتقال کے بعد شروع ہوا۔   مگر یہ ویسا ہی عروج تھا جیسے باسی کڑھی میں ابال آ جائے یا پانی کا بلبلہ فضا میں تھوڑی دیر پرواز کر کے پھٹ جائے۔ چناچہ اب زوال ہی زوال ہے۔ وجہ شاید اس کے پیچھے بھی بیوی کا نہ ہونا ہی ہو سکتی ہے۔

عمران خان پاکستان کی سیاست میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند وارد ہوئے۔ اس سے قبل  وہ کرکٹ اور سماجی خدمات کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے چکے ہیں۔ اپنی “ذرا ہٹ کے” والی سیاست میں انہوں نے حکومت کو مسلسل اپنے نشانے پر رکھا۔  ان کا نشانہ اتنا پختہ ثابت ہوا کہ وہ نواز شریف کو بھی لے بیٹھے۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ ” لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا”۔ عمران خان کا پاؤں زلفِ دراز کے بجائے زلفِ یار میں جا الجھا ہے۔ اور ایسا الجھا ہے کہ اب ان کی مخالف سیاسی جماعتوں نے انہیں اپنا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

ایسی صورت حال میں عمران خان صاحب کا تیسری شادی کے لیے بے چین ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ وہ ایسا کوئی رسک نہیں لینا چاہتے جس کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کا منصب ان کی دسترس سے دور ہو جائے۔   وہ نہیں چاہتے کہ ان کا عروج پانی کا بلبلہ ثابت ہو اور وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ  اقتدار میں آنے کے بعد سابقہ وزیر اعظم کی طرح مجھے کیوں نکالا کا راگ الاپتے پھریں۔

مسئلہ بس یہ ہے کہ ان کے خلاف خوف ناک حد تک میڈیا ٹرائل کے بعد کیا یہ شادی ہو پائے گی؟ کیا کوئی “لڑکی کا چچا” “ایہہ شادی نئیں ہو سکدی” کا نعرہ بلند کرتا ہوا ان کے راستے میں حائل تو نہیں ہو جائے گا؟ ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو اور کپتان کے سہرے کے پھول کھلیں۔  اور انہیں “زوجہ گراں مایہ” حاصل ہو جائے۔

اقتدار تو آنی جانی چیز ہے۔ اقدار ضرور حاصل ہونا چاہیئے اور اس کے لیے روحانی پیروں سے فیض حاصل کرنے سے بہتر طریقہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟