counter easy hit

نقصان کا ذمے دار کون؟

جسٹس افتخار محمد چوہدری جب پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے تو انھوں نے ازخود نوٹس کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ جسٹس افتخار چوہدری کو سابق صدر پرویز مشرف نے معزول کردیا تھا اور ان کا مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سپرد کیا تھا۔ وکلاء نے جسٹس چوہدری کی معزولی کے فیصلے کو قبول نہیں کیا تھا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منیر اے ملک نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن، حامد خان، علی احمدکرد، رشید اے رضوی اور عاصمہ جہانگیر وغیرہ نے اس تحریک کی قیادت کی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس تحریک کی حمایت کی مگر مسلم لیگ ن جسٹس افتخار چوہدری کی حمایت میں  سب سے آگے تھی۔

جب آصف زرداری صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تو انھوں نے جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے سے انکار کیا۔ میاں نواز شریف نے لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ میاں صاحب بیرسٹر اعتزاز احسن کے ہمراہ گوجرانوالہ تک پہنچے تھے کہ اس وقت کے سپہ سالار جنرل کیانی کا ٹیلی فون موصول ہوا اور جسٹس افتخار چوہدری دوبارہ چیف جسٹس بن گئے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اب مختلف معاملات پر ازخود نوٹس لینے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان معاملات میں میمو کیس سے لے کر اداکارہ عتیقہ اوڈھو کے سوٹ کیس سے اسلام آباد ایئرپورٹ پر شراب کی بوتل کی برآمدگی کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی۔

صدر آصف زرداری نے لوڈ شیڈنگ کے دورانیے کوکم کرنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مختلف نوعیت کی رعایتیں دیں جس کی بناء پر کئی غیر ملکی فرموں نے بجلی کے منصوبے شرو ع کیے۔ دنیا میں بجلی کی کمی دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسے بحری جہازوں سے معاہدہ کیا جائے جن پر ہیوی ڈیوٹی جنریٹر نصب ہوں اور جہاز جیسے ہی گودی میں داخل ہوجائیں ان جنریٹروں کو بجلی کے نظام سے منسلک کردیا جائے، یوں مختصر ترین عرصے میں بجلی کی کمی پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔

ایسے پاور اسٹیشن دنیا بھر میں کام کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ترکی کی ایک فرم سے ایسا ہی معاہدہ کیا۔ ترکی کا ایک جہاز کے اے آر کے وائے کراچی آگیا جو 232 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت رینٹل پاور پروجیکٹس کے ذریعے 206 میگا واٹ بجلی پیدا کرنا چاہتی تھی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کسی نامعلوم ذرایع سے اطلاع ہوئی یا مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کی ایک عرضداشت سے علم ہوا کہ اس معاہدے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے عہدیداروں نے کک بیک وصول کیے ہیں۔

جسٹس افتخار چوہدری نے ترکی کے بجلی پید اکرنے والے جہاز کی آمد کا فوری نوٹس لیااور ابتدائی سماعت کے دوران اس معاہدے کو غیر شفاف جانا اور حکم دیا کہ قومی احتساب بیورو فوری طور پر اس کی تحقیقات کرے اور یہ بھی حکم جاری کیا کہ اس مقدمے کے فیصلے تک یہ جہاز پاکستان کی سمندری حدود پار نہ کرے۔ جسٹس چوہدری کے اس حکم کے بعد کے اے آر کے وائے جہاز سے بجلی کی فراہمی کا معاملہ معطل ہوا۔ یہ جہاز تقریباً ایک سال تک کراچی کی دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم پر رکا رہا۔ اس جہاز کا کرایہ بڑھنا شروع ہوگیا۔

نیب کی تحقیقاتی کمیٹی کے اے آر کے وائے کے معاملے میں کوئی غیر شفافیت دریافت نہیں کر پائی،  پیپلز پارٹی کی حکومت کی معیاد مکمل ہوگئی۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں ازخود نوٹس کے لیے عرضیاں دینے والے خواجہ آصف ہی پانی وبجلی کی وزارت کے وزیر مقرر ہوئے۔ وزارت پانی و بجلی اور وزارت خارجہ کی کوششوں سے کے اے آر کے وائے کو پاکستان سے جانے کی اجازت  ملی۔ ترکی کی فرم نے ورلڈ بینک کے ملحقہ ادارے آئی سی ایس آئی ڈی میں مقدمہ دائر کیا۔ یہ ٹریبونل ورلڈ بینک کے قرضوں سے متعلق جھگڑوں کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے۔

اس سینٹر کے اہلکاروں نے فیصلہ دیا کہ حکومت پاکستان ترکی کی فرم کو ہونے والے نقصان کے معاوضے کے طور پر 800 ملین ڈالر کی رقم ادا کرے۔ یہ رقم 84000000000 روپے بنتی ہے۔اس ٹریبونل نے فیصلہ میں لکھا کہ جسٹس افتخار چوہدری حکومت پاکستان کی بین الاقوامی ذمے داریوں کا ادراک نہیں کرپائے۔

سپریم کورٹ ریاست کا حصہ ہے، اس بناء پر حکومت پاکستان معاوضہ اداکرنے کی پابند ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے مجوزہ احتساب بل میں ترمیم پیش کی ہے کہ احتساب کے نئے ادارے کا دائرہ کار ججوں اور جرنیلوں تک بڑھایا جائے۔ مسلم لیگ کے وزیر قانون زاہد حامد نے فرحت اﷲ بابر کی اس تجویز سے اتفاق کیا اور اب پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی و سینیٹ کی موجودگی میں پارلیمنٹ کمیٹی اس تجویزکا جائزہ لے گی۔

پاکستان میں اب تک صرف سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کے احتساب کی روایت ہے جس کا آغاز قیام پاکستان کے بعد ہی ہوگیا تھا جب سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو سمیت کئی سیاستدانوں کو بدعنوانی کے الزام میں سیاست سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ ایوب خان کے مارشل لاء میں بہت سے سیاست دانوں کو ایپڈو کے قانون کے تحت انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی گئی تھی۔

اس قانون کی زد میں خان عبدالقیوم خان اور میاں ممتاز دولتانہ جیسے سیاسی رہنما بھی آئے تھے۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد 303 بیوروکریٹس کو ملازمت سے نکال دیا تھا، ان  میں مصطفی زیدی اور الطاف گوہر بھی شامل تھے۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور کے آغاز پر 1300 افسروں کو بدعنوان اور اقرباء پروری کا ذمے دار قرار دیا تھا۔

جنرل ضیاء نے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے کر احتساب کا آغاز کیا۔ پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنماؤں کو ہائی کورٹ کے جج اور ایک فوجی افسر پر مشتمل بینچ کے سامنے بدعنوانی کے الزامات کی جوابدہی کے لیے پیش ہونا پڑا تھا۔ میاں نواز شریف کی پہلی حکومت میں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف مقدمات قائم ہوئے۔آصف زرداری اس دور میں جیل سے مقدمات کا سامنا کرتے رہے۔  بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں میاں نواز شریف کے خاندان کا احتساب ہوا۔

ان کے والد میاں شریف کو ایف آئی اے نے گرفتارکیا۔ میاں نواز شریف اور پرویز مشرف کے ادوار میں آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے رہنما عدالتوں میں بدعنوانی کے مقدمات میں اپنا دفاع کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے چوتھے دور میں منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنے صدر کے خلاف سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو پرانے مقدامات دوبارہ کھولنے کے لیے خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کی سزا ہوئی۔

اب میاں نواز شریف اور ان کا خاندان احتساب عدالتوں کا سامنا کررہا ہے، مگر اس ملک میں بدعنوانی کو ادارے کی شکل دینے والے جنرل ایوب خان، مشرقی پاکستان میں شکست کے ذمے دار جنرل یحییٰ خان اور ملک کا آئین توڑنے والے جنرل ضیاء الحق کو کسی قسم کے مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا مقدمہ شروع ہوا تو اسلام آباد کی سڑکوں پر بم پھٹنے لگے۔ جنرل مشرف کبھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ملک سے چلے گئے۔ جنرل مشرف نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے دباؤ پر انھیں مقدمات سے چھٹکارا ملا۔

ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو ’’جوڈیشل مرڈر‘‘ قرار دیا گیا۔ بھٹو کے مخالف سینئر وکیل ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ قصوری قتل کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اتنا برا ہے کہ اس فیصلے کو کسی وکیل یا کسی جج نے عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا۔ کراچی بار کے سینئر اراکین آفاق احمد اور جانِ عالم بار روم کی کینٹین میں اس پر رائے عامہ ہموار کررہے ہیں کہ حکومت پاکستان پر ہونے والے اس تاریخی جرمانہ کو عوام کے پیسے سے ادا نہیں کرنا چاہیے بلکہ جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے وکیل رہنماؤں سے وصول کرنا چاہیے جنہوں نے چوہدری صاحب کی بحالی کی تحریک چلائی تھی۔ اس تجویزکی پذیرائی نہیں ہوگی مگر اتنے بڑے نقصان کا ذمے دار کون ہے؟ اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔