counter easy hit

جو مرضی ہو جائے ، حالات کتنے ہی بدتر ہو جائیں الیکشن ہر حال میں منعقد ہونا چاہیے ورنہ۔۔۔۔ نامور صحافی نے پاکستان دشمن عناصر کی گھناؤنی چال بے نقاب کر دی

لاہور ؛ الیکشن میں چند روز باقی رہ گئے ہیں بھر بھی چند مفاد پرست غیر ملکی آلہ کار انہیں ملتوی کرانے کی خواہس میں مبتلا ہیں سانحہ بنوں، پشاور اور مستونگ ہی نہیں بلکہ مختلف جماعتوں کے سر کردہ رہنماؤں پر فائرنگ اسی خواہش کی نشاندہی محسوس ہو رہی ہے

معروف تجزیہ کار ناصر نقوی اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ملک عزیر کی تینوں بڑی پارٹیوں نے خدشات اور تحفظات کا اظہار بھی اس لئے کیا ہے کیونکہ دہشتگردوں اور ملک دشمن عناصر کی جانب سے حملوں کی خبر قومی فریضہ افاروں نے بھی دی ہئ خدا خیر کرے کوئی بڑا حاڈثہ نہ ہو ورنہ متعدد قومی رہنما دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں تاہم انتخابات میں روایتی جوش و خروش اسی لئے دیکھائی نہیں دے رہا کہ موجودہ حالات میں سب کے سب رہنما مستقبل سے بے خبر ہیں۔ دعوے سب کے ہیں لیکن جیت کی گواہی کسی کا دل نہیں دے رہا، میرے خیال میں اب حالات بد تر سے بد تر ہو جائیں تب بھی الیکشن اپنے شیڈول کے مطابق ہو جانا چاہئے۔ اس میں جنرل (ر) اسلم بیگ کی منطق شامل ہے کہ انہوں نے محمد خاں جونیجو کی حکومتی بحالی کا فیصلہ اسی لئے رکوایا تھا کہ قومی الیکشن کی پھر پور تیاری کر چکی تھی، اس وقت بھی حالات اس سے مختلف ہرکز نہیں تھے۔ اگر خدانخؤاستہ الیکشن ملتوی ہوئے تومایوسی کے ساتھ دشنوں کی چال کامیاب ہو جائے گی۔ پاکستان کی تاریخ کے ریکارڈ ہولڈر نااہل وزیر اعظم کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور منی لانڈرنگ کے جرم

میں اڈیالہ جیل پہنچ چکے ہیں سیاسی تاریخ کے منفرد قیدی، منفرد انداز میں سزا بھگت رہے ہیں حالانکہ یہ قید بامشقت ہے اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ شہر کھلے میدان ہو یا سلاخوں کے پیچھے شیر شیر ہی ہو تا ہے ان کے آڈیو پیغامات اگر تواتر سے آےت تو متوالوں میں ہلچل پیدا ہو سکتی ہے۔فی الحال میدان سیاست میں عمران خان کا بلا اپنے مد مقابل سیاستدانوں کیلئے” بلا” بنا ہوا ہے۔لاہور سمیت پورے پاکستان میں ان کے ارب پتی فنانسرز نے جھنڈوں اور فلیکس سے سیاسی بہار کے رنگ پیدا کئے ہوئے ہیں لیکن ہمارا ماضی گواہ ہے کہ جھنڈوں ، جلسوں اور جلوسوں سے کامیابی نصیت نہیں ہوتی کیوں کہ خاموش اکثریت گھروں سے صرف ووٹ دینے نکلتی ہے یا پھر عام تعطیل کو انجوائے کرتی ہے، انہیں میلوں ٹھیلوں سے کوئی غرض نہیں وہ جانتے ہیں کہ انتخابی نعرے اور وعدے محض سیاسی ہوتے ہیں، اس لئے ان پر عمل درآمد نہیں کرتا اور نہ ہی” پارٹی مشور” کو الیکشن کے علاوہ کہیں زیر بحث لایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ جمہوریت مضبوط ہوتی ہے اور نہ ہی جمہوری اقدامات تمام پارٹیوں کت منثور ” ڈنگ ٹپاؤ” پالیسی سے زیادہ کچھ نہیں جبکہ چند دانشور، تجزیہ کار اور حقوق انسانی کے علمبردار عمران خان کو “اقتدار کا گرین سگنل دینے کی جدوجہد میں مصروف ہیں کو عمران خان کے بیانیے کی پزیرائی سے زیادہ کچھ نہیں اس لئے ابھی تو آزاد اور لوٹا گروپ نے بھی اپنا رنگ کھانا ہے۔