counter easy hit

انٹرپول پولیس کیا ہے ؟ کیسے کام کرتی ہے؟

انٹرپول پولیس کیا ہے ؟ کیسے کام کرتی ہے؟

آپ کو یہ سن کر خاصا تعجب ہوگا کہ انٹرپول دنیا کی واحد پولیس فورس ہے جس میں کوئی پولیس آفیسر نہیں ہے بلکہ صرف آفس سٹاف ہے جو ’انفارمیشن شیئرنگ‘ کا کام کرتا ہے۔ لیکن انٹرپول کے متعلق جاننا ہمارے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے جس کے ممبرز کی تعداد 190سے زیادہ ہے۔ اور تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ’انٹرلنک‘ ہیں۔
تعارف
انٹرپول، دو الفاظ ’انٹرنیشنل‘ اور ’پولیس‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔ جسے  انٹرنیشنل کریمنل پولیس آرگنائزیشن کہتے ہیں۔ انٹرپول خالصتاََ ایک غیرسیاسی، غیرمذہبی اور غیر فوجی ادارہ ہے۔ اس کے ممبر ممالک کی تعداد 190ہے جبکہ نان ممبرز ممالک میں زیادہ تر سلطانی طرز حکومت اور کم آبادی رکھنے والے ممالک ہیں جیسے شمالی کوریا، پالاﺅ، سولومن آئس لینڈ، تووالو، کربتی وغیرہ۔ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے بھوٹان، تاجکستان اور تائیوان حال ہی میں انٹرپول کے ممبر بنے ہیں۔ انٹرپول کا ہیڈ کوارٹر فرانس کے شہر پیرس میں ہے۔

WHAT, IS, INTERPOL, POLICE, HOW, IT, WORKS, BY, ASIF BHATTI
انٹرپول کا کام دنیا بھر میں جرائم پیشہ افراد کے بارے میں سراغ لگاناہے، چونکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی ملک کی پولیس دوسرے ملک میں کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، اس لیے پوری دنیا میں ایک ایسا پولیس کا ادارہ قائم کیا گیا جو ہر ملک میں مشترکہ طور پر کارروائی کر سکے۔ انٹرپول کا ہر ملک میں اپنا ایک سب آفس ہے جس میں اس کا نمائندہ(بیورو) تعینات ہوتا ہے۔ اس کے سیکرٹری جنرل رونلڈ نوبل، صدر سنگاپور کے کھو بون ہوئی ہیں۔

WHAT, IS, INTERPOL, POLICE, HOW, IT, WORKS, BY, ASIF BHATTI
انٹرپول انسانی جذبے کے تحت پوری دنیا میں جرائم کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اور یہ اس کے اولین مقاصد میں سے ایک ہے۔ انٹرپول پوری دنیا میں جرائم پیشہ افراد کا پیچھا کرتی اور انہیں متعلقہ ملک کے حوالے کردیتی ہے۔ انٹرپول پر جن جرائم کا خاتمہ کرنے کی ذمہ داری عائد ہے ان میں دہشت گردی،منظم جرائم، ماحولیاتی جرائم، انسانی جرائم(انسانی سمگلنگ، قتل وغیرہ)، جنگی جرائم، کاپی رائےٹ، غیرقانونی دوائیں بنانا، منشیات کا پھیلاﺅ، ہتھیاروں کی سمگلنگ، منی لانڈرنگ، بچوں پرجنسی تشدد، فراڈ، آئی ٹی کرائم، کرپشن اور پراپرٹی کرائم وغیرہ شامل ہیں۔ انٹرپول نے 2008ءمیں 718افراد کی گرفتاری کے لیے 3,126ریڈ نوٹس جاری کیے۔ 2009ءاور 2010ءمیں یہ تعداد دگناہوگئی اوراس طرح گزشتہ چار سالوں میں انٹرپول نے پندرہ ہزار نوٹس جاری کیے۔ انٹرنیشنل پولیس یعنی انٹر پول نے اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کے شہریوں کے خلاف پندرہ ہزار نوٹس جاری کر رکھے ہیں اور ان پر عمل ہونا باقی ہے۔
تاریخ
بین الاقوامی پولیس کا ادارہ قائم کرنے کا خیال سب سے پہلے 1914ءمیں آیا جب موناکو میں 14ممالک کے پولیس آفیسر، قانون دان اور مجسٹریٹس نے مل کر مجرموں کو پکڑنے کا طریقہ کار، ان کی شناخت اور دیگر امور پر بات چیت کرنے کے بعد پہلی انٹرنیشنل کریمنل پولیس کانگریس قائم کی گئی، تاہم پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے اس میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔ 1923ءمیں انٹرنیشنل پولیس کے حوالے سے دوسری کانفرنس ویانا میں ہوئی جس میں انٹرنیشنل کریمنل پولیس  کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1923ءمیں اس تنظیم کے رکن ممالک میں امریکا، پولینڈ، آسٹریا، بلجیم، چائنہ، مصر، فرانس، جرمنی، یونان، ہنگری، اٹلی، ہالینڈ، رومانیہ، سویڈن، سوئٹزرلینڈ اور یوگوسلاویہ شامل تھے۔ 1938ءمیں   پر جرمن نازی قابض ہوگئے اور 1942ئمیں اس کا ہیڈ کوارٹر جرمنی کے شہر برلن منتقل کر دیا گیا۔ تاریخ میں ہے کہ 1938ءتا 1945ءانٹرپول پر جرمنوں کا ہی قبضہ رہا۔ دوسری جنگ عظیم اور نازیوں کی شکست کے بعد اس کا ہیڈ کوارٹر فرانس منتقل کردیا گیا۔ 1949ءمیں اقوام متحدہ نے انٹرپول کو غیر سرکاری تنظیم قرار دیا اور اقوام متحدہ کے تمام ممالک کو انٹرپول کا ممبر بننے کے لیے کہا۔ 1956ءمیں  کا نام بدل کر انٹرپول رکھ دیا گیا اور انٹرپول کو اٹانومس باڈی بنا دیا گیا جسے تمام ممبر زممالک کی مالی معاونت سے چلانے کی حکمت عملی طے پائی گئی۔ 1965ءمیں جنرل اسمبلی نے انٹرپول کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اہم ذمہ داریاں دیں۔ 1971ءمیں اقوام متحدہ نے انٹرپول کو بین الحکومتی ادارہ قرار دیا۔
اس کے بعد کے دور میں انٹرپول نے پوری دنیا سے جرائم پیشہ افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا، اور کمپیوٹر کی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنا ’ڈیٹابیس سنٹر‘ قائم کیا۔
2005ءمیں پہلی بار اقوام متحدہ اور انٹرپول نے القاعدہ اور طالبان کے کئی افراد کی گرفتاری کے لیے سپیشل نوٹسز جاری کیے۔
مختلف رنگوں کے نوٹس اور ان کا مقصد
انٹرپول چھ مختلف نوعیت کے نوٹس جاری کرتا۔ جس میں ریڈ، بلیو، گرین، یلو، بلیک اور اورنج نوٹس شامل ہیں۔
ریڈ نوٹس ؛ سرخ یا ریڈ نوٹس کسی بھی مطلوبہ شخص کی گرفتاری یا عبوری گرفتاری کرنے اور انہیں متعلقہ ملک کے حوالے کرنے کے بارے میں ہوتا ہے۔
بلیو نوٹس ؛ جبکہ بلیویعنی نیلا نوٹس کسی بھی جرائم پیشہ شخص کے متعلق اضافی معلومات حاصل کرنے کے لیے ہوتاہے۔
گرین نوٹس ؛ گرین یعنی سبز نوٹس کسی بھی جرائم پیشہ فرد کے متعلق معلومات فراہم کرنے کے لیے جاری کیا جاتا ہے, جو کسی اور ملک میں بھی جرم کرسکتا ہے۔
یلونوٹس  ؛ پیلا یا یلو نوٹس انٹر پول گمشدہ افراد کی شناخت بالخصوص بچوں کے متعلق جاری کرتا ہے۔
بلیک نوٹس: سیاہ یعنی بلیک نوٹس نامعلوم اداروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
اورنج نوٹس: اورنج نوٹس پولیس سمیت سرکاری اور عالمی اداروں کو لاحق خطرات کے بارے میں مطلع کرنے کے بارے میں جاری کیا جاتا ہے۔
انٹرپول کیسے کام کرتی ہے؟
انٹرپول کے ایک اہلکارکا کہنا ہے کہ
”انٹرپول کسی رکن ملک سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ وہ جس شخص کے خلاف ریڈ نوٹس وارنٹ گرفتاری جاری کیا گیا ہے، اس کو گرفتار بھی کرے بلکہ مطلوب شخص کو اس وقت تک بے گناہ سمجھا جانا چاہیے جب تک وہ قصوروار ثابت نہیں ہو جاتا“
انٹرپول دیگر ڈسپلن اداروں سے قدرے مختلف ادارہ ہے، اس کی پوری دنیا میں اپنی کوئی جیل نہیں ہے۔ اس کے کام کرنے کا طریقہ کچھ اس طرح سے ہے کہ انٹرپول ممبرز ممالک کے سیکیورٹی اداروں سے رابطے میں رہتا ہے اور معلومات کا تبادلہ کرتا رہتا ہے۔ چونکہ تمام ممالک کا کلچر، رہن سہن، زبان اور حکومتی سٹرکچر مختلف ہوتا ہے اس لیے انٹرپول کو معلومات کے تبادلہ کرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ بلکہ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جس ملک کے لیے کسی مجرم کو پکڑا جا رہا ہے وہ جرم دوسرے ملک یا مذہب میں جائز ہوتا ہے۔ اگرامریکی  ایف بی آئی اورامیگریشن کو اٹلی میں ایک دہشت گرد مطلوب ہے اور وہ نہیں جانتے کہ اٹلی پولیس (پولیزیا ڈیسٹانو) میں کس سے رابطہ کرنا ہے۔ تو اس سلسلے میں ایف بی آئیاور امیگریشن حکام ”انٹرپول نیشنل بیورو ان اٹلی“ سے رابطہ کریں گے۔ انٹرپول نیشنل بیورو ان اٹلی صرف معلومات کے تبادلے کا کام کرے گا مثلاََ امریکا اور اٹلی کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان رابطہ کار  کے طور پر کام کرے گا۔
انٹرپول کی سب سے بڑی خاصیت اس کے پاس دنیا بھر کے جرائم پیشہ افراد سے متعلق مواد کا ہونا ہے۔ یہ اپنے ’ڈیٹابیس‘ کی بنا پر دنیا میں موجود کسی بھی شخص کی آسانی سے شناخت کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ انٹرپول دنیا کی واحد آرگنائزیشن ہے جس کے لیے بارڈر کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ انٹرپول دنیا بھر میں ہونے والے جرائم اور مجرم کا آسانی سے سراغ لگانے کی اہلیت رکھتا ہے اسے یہ علم ہوتا ہے کہ کس ملک میں کس جرم کی شرح زیادہ ہے اور کہاں سب سے زیادہ منشیات یا انسانی سمگلنگ وغیرہ کا کام ہوتا ہے۔
انٹرپول کے ڈیٹا بیس میں فنگر پرنٹس، چہرے کی تصاویر (مگ شاٹس)، مطلوب افراد، ڈی این اے کے نمونے اور سفری دستاویزات کا ضخیم ذخیرہ موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف سفری دستاویزات کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے۔
تمام ممبرز ممالک کی I-24/7کمیونی کیشن نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے سے انٹرپول کے ذریعے رسائی ہوتی ہے۔ اس مخصوص نیٹ ورک کو ہر ملک میں موجود انٹرپول بیورو آفس کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ ممالک نے تو اس ڈیٹا بیس کی رسائی اپنے ائیر پورٹس اور بارڈر جیسی اہم جگہوںتک حاصل کرلی ہے۔ ممبر زممالک I-24/7سسٹم کے ذریعے ایک دوسرے ملک کے ڈیٹا بیس تک بھی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
کسی بھی بڑے حادثے، دہشت گردی، بڑے پیمانے پر قتل و غارت یا کسی لیڈر کے قتل کی صورت میں انٹرپول ’(انسی ڈینس ریسپانس ٹیم ‘ کو متاثرہ ملک بھیج سکتی ہے۔ یہ ٹیم متاثرہ ملک کے سکیورٹی اداروں کو اپنی ماہرانہ رائے دیتی ہے، اپنے ڈیٹابیس تک مکمل رسائی فراہم کرتی ہے اور شک کی بنیاد پر کسی کی شناخت کرتی ہے۔ 2005ءمیں ایسی 12ٹیموں نے دنیا بھر میں اپنی خدمات سرانجام دیں۔ انٹرپول نے چونکہ جائے حادثہ پر فوراََ پہنچنا ہوتا ہے اس لیے انٹرپول کے اہلکاروں کے لیے دنیا بھر میں ایک ہی پاسپورٹ بنایا گیا ہے، تاکہ کسی بھی ملک میں داخل ہونے کے لیے انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
انٹرپول اور پاکستان
اسلام آباد انٹرپول نیشنل سنٹرل بیورو این سی بی فار پاکستان، ایف آئی اے کا ہی حصہ ہے۔ یہ ادارہ ملک کے چاروں صوبوں میں اپنی برانچز رکھتا ہے مثلاََ جہاں ایف آئی اے کا صوبائی ہیڈکوارٹر ہوگا وہیں ساتھ انٹرپول کا آفس بھی ہوگا، اسلام آباد انٹرپول آفس میں 15کے قریب آفیسرز ہیں جو پانچ سیکشنز کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان سیکشنز میں یورپ اور امریکا، مڈل ایسٹ، ایشیااور افریقہ، منشیات اور منظم جرائم، جنرل ٹریننگ وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان 9/11کے بعد عالمی دہشت گردی کا شکار رہا اور افغان جنگ کی وجہ سے خطے میں خاصی اہمیت اختیار کر گیا، اس تناظر میں گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کاانٹرپول سے رابطہ بھی رہا اور انٹرپول نے پاکستان میں جرائم پیشہ افراد کا ڈیٹابیس بنانے میں بھی خصوصی مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کی۔ انٹرپول نے ایف آئی اے کے تمام مراکز کو اپنے ڈیٹا بیس تک رسائی دی اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادکار بڑھانے کے لےے تربیت میں معاونت کی تجویز دی گئی۔
2009ءکے دوران انٹرپول کی طرف سے پاکستان کو 8ہزار 581 پیغامات موصول ہوئے جبکہ پاکستان کی طرف سے انٹرپول کو سات ہزار 707 پیغامات ارسال کےے گئے۔ انٹرپول نے ایف آئی اے کے 38مراکز کی استعدادکار بڑھانے کے لےے 20لاکھ یورو بھی دئیے۔ کچھ عرصہ قبل ایف آئی اے نے انٹر پول اور پاکستان کو مطلوب انسانی سمگلر فیصل اعجاز کو گرفتار کیا۔ ملزم فیصل کو گجرات سے پکڑا گیا ملزم سینکڑوں افراد کو غیر قانونی طور پر یونان اور ترکی بھجوانے میں ملوث تھا۔ ملزم نے ان ملکوں میں سیف ہاو¿س بنا رکھے تھے جہاں پاکستان سے لے جائے گئے افراد کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ ملزم ناروے کی حکو مت کو بھی انسانی سمگلنگ کے مقدمات میں مطلوب ہے۔

1 کیا انٹرپول سابق صدر پرویز مشرف کو گرفتار کر سکتی ہے؟
پرویز مشرف اگست 2008ءسے لندن اور دبئی میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ انتخابات میں شرکت کے لیے پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں، تاہم موجودہ حکومت کے اس انتباہ کے بعد کہ ا±نہیں پاکستان پہنچنے پر گرفتار کر لیا جائے گا، ا±نہوں نے وطن واپسی کے منصوبوں کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر رکھا ہے۔ پاکستانی عدالتیں بلوچ رہنما اکبر بگٹی کی 2006ءمیں ہلاکت اور 2007 ءمیں بے نظیر بھٹو کے قتل کے سلسلے میں پرویز مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہیں۔ سابق وزیر اور موجودہ مشیر داخلہ رحمان ملک کا موقف ہے کہ پرویز مشرف نے نہ صرف بے نظیر بھٹو کو کافی سکیورٹی مہیا نہیں کی تھی بلکہ اکتوبر 2007ءمیں ا±ن کی وطن واپسی سے پہلے ا±نہیں ا±س وقت ٹیلی فون پر دھمکیاں بھی دی تھیں، جب وہ ابھی واشنگٹن میں تھیں۔
رحمان ملک نے شاید انٹرپول کی کارروائی کا طریقہ کار نہیں پڑھا ہوا یا انہوں نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں دی ورنہ وہ پوری تیاری کے ساتھ اپنا کیس انٹرپول کے سامنے رکھتے اور انٹرپول کے قوانین میں آرٹیکل 3 کے مطابق انٹرپول کسی سیاسی، نسلی، مذہبی، فوجی قسم کے مقدمات میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتی۔ لہٰذا سیاسی مسئلے کی وجہ سے انٹرپول پرویز مشرف کو گرفتار نہیں کرے گی۔ اگر رحمان ملک کو انٹرپول کی خدمات حاصل کرنا بھی تھیں تو کم از کم بگٹی اور بے نظیر کے قتل میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت فراہم کرد ئیے جاتے، تاکہ انٹرپول برطانوی حکومت سے پرویز مشرف کی طلبی کی درخواست کر سکتی۔
دوسرا یہ کہ برطانوی حکومت پرویز مشرف کو پاکستان کے حوالے کیوں کرے گی؟ سابق صدر وہاں ایمانداری سے ایک مہمان کے طور پر رہ رہے ہیں اور ان کے قوانین کی بھی پاسداری کر رہے ہیں۔ جبکہ برطانوی قوانین کے مطابق اگر کوئی شخص کسی ملک کو مطلوب ہو لیکن وہ برطانیہ میں ایک مہذب شہری کی طرح زندگی گزار رہا ہو تو برطانوی حکومت قطعاََ اس شخص کو ملک سے نہیں نکالے گی۔ یا کسی دوسرے ملک کے حوالے کرے گی۔
اس کے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کا برطانیہ کے ساتھ ’حوالگی ملزم‘ کا کوئی معائدہ موجود نہیں ہے۔
اور آخری بات کہ اگر پاکستان برطانیہ کو پرویز مشرف کی حوالگی کی درخواست کرتا بھی ہے تو پرویز مشرف کو پاکستان کے حوالے کرنے کا کام برٹش گورنمنٹ کا نہیں ہے یہ فیصلہ برٹش کورٹس کریں گی کہ آیا ملزم کو ملک بدر کیا جانا چاہئیے یا نہیں۔۔۔!!!

2 انٹرپول کو مطلوب ترین افراد

2 انٹرپول جب سب سے زیادہ متحرک ہوئی
چونکہ خفیہ رپورٹوں کی اشاعت کے ذریعے شہرت پانے والی ویب سائٹ وکی لیکس کے سربراہ جولین اسانج نے افغان جنگ، عراق جنگ اور اس سے متعلقہ کئی راز افشاں کیے اور ایک لاکھ سے زائد دستاویزات منظرعام پر لانے کا اہم کارنامہ سرانجام دیا اور ایک عرصہ تک پوری دنیا کے میڈیا پر چھایا رہا۔ جولین اسانج کے انکشافات سے پاکستان سمیت کسی ملک کی کوئی حکومت محفوظ نہیں رہی۔ لہذا جولین اسانج پر پرانے مقدمات کو ری اوپن کیا گیا جس میں جنسی تشدد کے کیسز بھی شامل تھے اور سویڈن کی عدالت نے اسانج کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ اس کے ملک میں نہ ہونے کی وجہ سے انٹرپول کی مدد حاصل کی گئی۔ انٹرپول نے جولین اسانج کی گرفتاری کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کیے۔ سویڈن نے انٹرپول سے مطالبہ کیا کہ جنسی تشدد اور خاتون کی عصمت دری کے دو الگ الگ واقعات میں مطلوب جولین اسانج کو گرفتار کر کے اس کے حوالے کرے۔ انٹرپول پولیس نے جولین اسانج کی گرفتاری کے ریڈ وارنٹ اپنی ویب سائٹ پر بھی جاری کیے اس کے علاوہ عالمی پولیس کے دنیا بھر میں 188 رکن ممالک کو بھی وارنٹ گرفتاری پرعمل درآمد کے سخت احکامات جاری کیے گیے ۔نوٹس میں انٹر پول نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر ان کے پاس جولین اسانج کی موجودگی کے بارے میں معلومات ہوں تو وہ پولیس سے رابطہ کریں۔ انٹرپول نے جولین اسانج کی گرفتاری کے وارنٹ ایک ایسے وقت میں جاری کیے جب وکی لیکس نے امریکا اور دیگر ممالک کے سفارت کاری کے اڑھائی لاکھ خفیہ پیغامات شائع کیے تھے جس سے پوری دنیا میں ایک بھونچال سا آگیا۔ امریکا نے وکی لیکس کے بانی کے خلاف سخت برہمی کا اظہار کیا۔
گزشتہ سال اپریل میں اسانج نے واشنگٹن میں نیشنل پریس کلب میں ایک ویڈیو بھی دکھائی تھی جس میں 2007 میں بغداد میں ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر سے بارہ عراقیوں کو ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا جن میں رائٹرز کے دو صحافی بھی شامل تھے۔ جولائی میں ان کے لیے حالات اس وقت غیر محفوظ ہونے شروع ہو ئے جب وکی لیکس نے افغانستان کی جنگ پر 77 ہزار امریکی فوجی دستاویز شائع کیے۔اور اس کے بعد اکتوبر میں عراق جنگ پر چار لاکھ خفیہ دستاویز جاری کیے گئے۔

3 انٹرپول اور گردہ فروشی
گردہ فروشی دنیا کا ایک گھناﺅنا کاروبار بن چکا ہے، غریب ممالک سے گردے امیر ممالک میں درآمد کیے جارہے ہیں اور پوری دنیا میں منظم گروہ اس پر کام کررہے ہیں۔ انٹرپول کے مطابق بھارت میں سب سے زیادہ گردہ فروشی کا غیر قانونی دھندہ جاری ہے اور اس کاروبار میں بعض حکومتی شخصیات کے ملوث ہونے کے بھی ثبوت ملے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انٹرپول نے ہندوستان میں گردہ چوری گروہ کے اہم ملزم ڈاکٹر امت کمار اور ان کے بھائی کی گرفتاری کے لیے بین الاقوامی وارنٹ جاری کیے۔ انٹرپول وارنٹ میں کہا گیا ’ کمار اور ان کے ساتھی جیون کے خلاف غیر قانونی طور پر گردے کی پیوندکاری اور دھوکہ بازی سمیت مجرمانہ سازش کرنے کی بنیاد پرگرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے ہیں۔‘ ہندوستان کی پولیس نے انٹر پول کو بتایا کہ مشتبہ ڈاکٹر امت کمار اور ان کے ساتھی جیون راوت نے پچھلے آٹھ برس میں تقریباً پانچ سو افراد کا زبردستی آپریشن کیا اور ان کے گردے نکال لیے۔ گردہ چور گروہ کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب اترپردیش کے علاقے مراد آباد میں پولیس کو یہ اطلاع ملی تھی کہ بعض افراد گڑگاو¿ں میں گردے نکلوانے کے لیے جا رہے ہیں۔ پولیس نے اس اطلاع پر چھاپہ مارا تو اسے گڑگاو¿ں میں ایک ایسا کلینک ملا جہاں آپریشن کی ہر سہولت موجود تھی۔اس کلینک میں کئی ڈاکٹر غیر قانونی طور پر گردہ پیوند کاری کا کام انجام دیتے تھے۔ انٹرپول تمام غریب ممالک خصوصاََ پاکستان پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے اور کئی ملزمان کو اس حوالے سے پکڑ کر متعلقہ ملک کے حوالے بھی کیا گیا ہے۔

4 مغنیہ مطلوب ترین، تیز ترین اور شاطر دہشتگرد
عماد فائز مغنیہ کئی دہائیوں سے امریکی جاسوس اور سپیشل فورسز کے جال میں نہیں آ رہے تھے۔ وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں امریکہ اور انٹرپول کو مطلوب تھے۔کچھ امریکی حکام انہیں ’نامعلوم دہشت گرد‘ کہتے ہیں کیونکہ ان کے نہایت قریبی ساتھیوں کے علاوہ کسی نے انہیں نہیں دیکھا تھا۔ بیس نہایت مطلوب افراد کی تصاویر میں امریکی ایف بی آئی کے پاس مغنیہ کی تصویر بیس سال پرانی ہے اور کہا جاتا ہے کہ سرجری کے ذریعے انہوں نے اپنے چہرے کو بالکل تبدیل کر لیا تھا۔
اسامہ بن لادن سے پہلے امریکہ کے لیے مغنیہ دنیا کے مطلوب ترین انسان تھے۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 1983ءکے لبنان میں امریکی بیرکوں پر خودکش حملے کا منصوبہ مغنیہ نے بنایا تھا۔ اس کے علاوہ 80ءکی دہائی میں امریکی سفارتخانے پر دو حملے اور امریکیوں کے اغوا کے پیچھے بھی انہیں کا ہاتھ بتایا گیا تھا۔1985ءمیں ٹی ڈبلیو ای کے جہاز کا اغوا بھی مغنیہ کی منصوبہ بندی تھی۔مغنیہ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1992ءمیں اسرائیلی سفاتخانے پر بم حملے کے پیچھے بھی انہی کا ہاتھ تھا جس میں انتیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔مغنیہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں سوائے اس کے کہ وہ 1962ءمیں مشہور شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے اور یاسر عرفات کے ساتھ کام کیا اور پھر اسلامک جہاد کے نام سے تنظیم قائم کی۔ وہ حزب اللہ کے رہنماءبھی رہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مغنیہ جیسا تیز اور شاطر دہشت گرد انہوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ امریکی سی آئی اے کی سابق اہلکار کا کہنا ہے ’مغینہ ایک دروازے سے داخل ہوتا اور دوسرے سے نکلتا، روزانہ گاڑی تبدیل کرتا، فون پر کسی سے ملاقات کا وقت طے نہیں کرتا۔۔۔ وہ ایک تیز اور شاطر دہشت گرد تھا۔‘ حزب اللہ کے ماہر ڈاکٹر میگنس کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے حزب اللہ ایک تنظیم کے طور پر ابھری اسی طرح مغنیہ پسِ پردہ جاتے رہے۔ ’ان کا ایک قدم حزب اللہ میں تھا اور دوسرا ایرانی انٹیلیجنس میں۔‘

حاصل کلام
ایک مرتبہ سابق روسی صدر گورباچوف نے کہا تھا کہ مجھے امریکہ سے خفیہ معلومات کے تبادلے نے تباہ کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انٹرپول ’گلوبل ولیج‘ کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن ہمیں اس سے قطعاََ غافل نہیں رہنا چاہیے کہ ڈیٹاشئیرنگ کے اس چکر میں ہم کہیں اپنی کمزوریاں نہ کسی کو دے بیٹھیں۔

تحریر: آصف بھٹی
WHAT, IS, INTERPOL, POLICE, HOW, IT, WORKS, BY, ASIF BHATTI