counter easy hit

تاریخ کیا سکھاتی ہے؟

تاریخ کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتی ہے تاکہ ہم ماضی سے سبق سیکھ کر آنے والے کل کا ایک اہم اور کارآمد حصہ بن سکیں

عام طور پر تاریخ دانوں سے ایک سوال بہت کثرت سے کیا جاتا ہے کہ تاریخ کو پڑھنے کا کیا فائدہ ہے یا اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ جاننا ضروری ہے کہ اس سے پہلے دنیا میں کیا کیسے کب اور کیوںہوا؟ میرا جواب ہے ہاں ! کیوںکہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ہے۔ ہرگز رتا لمحہ ہر گزرتے پل میں ہو نے والا کوئی بھی واقعہ تاریخ بن جاتا ہے ۔ تاریخ ہر قوم کا اثاثہ ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح سے قوموں کے لئے فخر کا نشان بھی ہے اور عبرت کا ذریعہ بھی ، تاکہ ہم گزر ے کل سے سیکھ کر آج اور آنے والے کل کا ایک اہم اور کارآمد حصہ بن سکیں۔
اک دن باتوں باتوں میں میرے ساتھ بیٹھی میری ایک کولیگ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے تاریخ کو ہی بطور مضمون کیوں چنا؟ کوئی اچھا مضمون کیوں نہیں پڑھا؟ تو مجھے بہت حیرانی ہوئی ، میں تب سوچ میں پڑھ گئی کہ اچھا مضمون کیا ہوتا ہے؟ کیا تاریخ ایک برا مضمون ہے؟ یا ایسا سمجھا جاتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ پر شاید وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہی تھی کہ جو قومیں اپنے ماضی سے سبق نہ سیکھیں ان کے نزدیک تاریخ بس گزرے ہوئے چند اچھے یا برے واقعات کا ایک دورانیہ ہی ہو تا ہے جو کہ آیا اور گزر گیا۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ کسی بھی قوم کی شناخت کو جاننے اور اہمیت کو پہچاننے کے لئے بلکہ کسی ایک انسان کو بھی سمجھنے کے لئے اس کی گزشتہ اور موجودہ زندگی کے ربط کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔
ہر قوم یا انسان اپنے ماضی کے بغیر نامکمل اور ادھورا ہے اور یہ ایک خول کی طرح ہے ہم سب کے اردگرد لپٹا ایک خول! وہ خول کہ جس میں آ پ کی ذات کے سارے اسرار و رموز چھپے ہوئے ہیں ۔ تاریخ قابل استعمال شئے تو ہرگز نہیں کہ گزر گئی تو بھلا دیا جائے بلکہ یہ تو قوموں کی بنیادی ضرورت ہے ۔ ایک اور بات جو آج کل مشاہدے میں آتی ہے کہ ریاستیں عام طور پر اور قوم پرست خاص طور پر ہر طرف سے ایک سوال کا نشانہ بنے نظر آتے ہیں وہ یہ کہ تاریخ کے واقعات کو زیادہ مؤثر اور بہتر بنا کر ہم کیسے پیش کر سکتے ہیں ؟ اس سلسلے میں عام طور پر جو اعتراضات اس مضمون پر کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ بہت خشک مضمون ہے تو اس کے لئے یہ کہنا چاہوں گی کہ بھئی سچ کو ہضم کر نے کے لئے بھی تو بڑا دل گردہ چاہیے وہ بھی ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں تاریخ کے ریشمی دھاگوں کے الجھے سروں کی سچائیاں ڈھونڈنے کے ناقابل معافی جرم میں ہی لوگ تاریخ بنا دئیے گئے بد قسمتی سے ہمارے ہاں حقیقی تاریخ کم ہی پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن خیر، دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ یہاں پر یہ سوال تو اٹھتا ہی ہے کہ ہم اپنے ماضی کو سمجھے بغیر کیسے اپنے حال اور مستقبل کو شاندار بنا سکتے ہیں؟
ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں ہم کون ہیں اگر ہم یہ ہی نہیں جانتے کہ ہم کیا تھے؟ بہت مشہور جملہ ہے کہ ’’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے‘‘ آپ کے خیال میں کیا یہ درست ہے؟ اگر تو یہ واقعی حقیقت ہے جیسا کہ کہا یا سمجھا جاتا ہے تو پھر ہمیں اس بات کو بھی سمجھنا ہو گا کہ یہ جو تاریخ ہے نا، اسے بھی سب ایک جیسے نظریے سے نہیں دیکھتے بلکہ سب کا الگ ایک نظریہ ہے، اسے سمجھنے کا! تاریخ ایک مذاق ہے ان کے لئے جو اس کو مذاق کے طور پر سوچتے ہیں اور تاریخ ایک المیہ ہے ان کے لئے جو اس کو محسوس کرتے ہیں یہ جو ہماری اپنی، بہت اپنی تاریخ ہے نا۔ یہ اجنبیوں کی کہانی نہیں ہے یہ ہماری اپنی کہانی ہے۔ اگر ہم تھوڑا سا پہلے اس دنیا میں آتے تو یہ تاریخ ہمارے لئے اس وقت ہمارے حال کی ایک یادداشت ہوتی ۔ ہمیں اس چیز کو یاد رکھنا ہو گا کہ یہ کس طرح کی ہے، ہمیں کیا سکھاتی اور ہمیں کیا بتاتی ہے کہ ہم کون تھے اور اب ہم کیا ہو گئے؟
تاریخ سے سیکھنا ہے تو ایک بات ذہن نشین کرنا ہو گی، تاریخ بھی صرف انہیں تسلیم کرتی ہے جو اسے تسلیم کریں اور مثال کے طور پر زندہ بھی انہی کو رکھتی ہے جو اس سے کچھ سیکھنے پر آمادہ ہوئے ورنہ بڑے بڑے لوگ اقوام تاریخ کے اس سفر میں مٹی کی دھول بنے اور بے نام و نشاں ہو گئے۔ اگر ہم یہ نکتہ سمجھ لیں کہ قوموں کی کامیابی کے سب راز اس تاریخ کے کھلنے، سمجھنے اور سیکھنے کے محتاج ہیں تو شاید یہ ہی تاریخ ہمیں ایسے سوالوں اور ہاتھوں میں کشکول لئے در در بھیک مانگنے کی ذلالت سے بچا سکے ۔ اس بات کو سمجھ کے چلنا ہو گا کہ تاریخ تجرید نہیں ہے یہ تجرید کی دشمن ہے یہ مفروضوں کا مجموعہ نہیں بلکہ معاشرے کی سلگتی سچائیوں تک پہنچنے کا ایک واحد راستہ ہے ہم اپنے کل سے کچھ سیکھیں گے تو ہی اپنے کل میں کچھ کر پائیں گے۔