counter easy hit

ایران چا بہار کی بندرگاہ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

اس ہفتے ایران کے صدر حسن روحانی نے چابہار بندرگاہ ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کا افتتاح کیا۔ اس منصوبے کا افتتاح گذشتہ سال مئی میں اس وقت کیا گیا تھا، جب انڈیا، ایران اور افغانستان نے چابہار کی بندرگاہ سے زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان اور وسط ایشیاء تک رسائی کے لئے ایک بین الاقوامی راہداری قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستیں لینڈلاک ممالک ہیں۔ ان کو اپنی تجارت کے لئے کسی سمندر تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ چابہار کی بندرگاہ کے راستے سے انڈیا کو افغانستان، ایران کے علاوہ، وسط ایشیائی ریاستوں، روس، اور ترکی اور یورپ تک زمینی رسائی مل سکتی ہے۔ اور تجارتی سامان کے کنٹینرز ان ممالک کی منڈیوں تک پہنچائے جاسکتے ہیں۔
چابہار کی بندرگاہ کے افتتاح سے کچھ دن پہلے پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ نے ایران کا سرکاری دورہ کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایران کے سرکاری دورے میں ایرانی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف سے ملاقات کے علاوہ ایرانی صدراوروزیرخارجہ سے بھی  ملاقاتیں کیں۔ایرانی قیادت نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں کوسراہاتے ہوئے کہا کہ  خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان مثبت کرداراداکررہاہے۔ اس موقع پر آرمی چیف نے پا ک ایران سرحدپربہترسیکیورٹی انتظامات پرزوردیا۔اس کے علاوہ انہوں نے د فاعی اوراقتصادی تعاون پربھی بات کی۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان اور ایران دو برادر ہمسایہ ممالک ہیں۔ پاکستان، ایران ثقافتی تاریخی اور مذہبی رشتے میں جڑے ہیں۔  دونوں ممالک کی مسلح افواج کے باہمی تعاون کی ایک تاریخ ہے ۔ دہشت گرد مشترکہ دشمن ہیں۔   دہشتگردوں کی جانب سے پاکستان ایران بارڈر کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔  پاکستان ایران کی افواج کے درمیان تعاون مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔
ایران کا مشرق وسطیٰ اور خلیج کی سیاست میں کلیدی کردار ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنوبی ایشیا کی سیاست کے حوالے سے اس نے آنکھیں موند رکھی ہیں۔
پاک ایران تعلقات کو تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ پاکستان اور ایران نہ صرف پڑوسی ملک ہیں بلکہ نظریاتی، مذہبی تاریخی اور ثقافتی رشتوں اور دوستی کی گہری بنیاد یں رکھتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے والا پہلا ملک ایران تھا اور اسی طرح 1979ء کے ایرانی اسلامی انقلاب کو سب سے پہلے پاکستان کی حکومت کی جانب سے تسلیم کیا گیا۔ معمولی اتار چڑھاؤ سے قطعِ نظر پاکستان کی مختلف حکومتوں کے ادوار میں مجموعی طور پر پاک ایران تعلقات ہمیشہ ہی بہت اچھے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ ریلوے اور سڑکوں سے رابطہ موثر بنایا جائے۔ تجارتی حجم میں اور زیادہ اضافہ ہو۔ میڈیا کے محاذ پر تعلقات میں اضافہ ناگزیر ہے۔ صحافیوں کا باہمی تعامل بڑھنا چاہیے۔ ثقافت کے شعبہ میں ایران چاہتا ہے کہ ایرانی مصنوعات اور کتب کی نمائشیں، علمی سیمینار اور فلموں کا تبادلہ بڑے پیمانے پر ہو۔ پاکستان اور ایران کو سیاسی اور عسکری سطح پر بھی تبادلہ خیال کی روایت کو تازہ کرنا چاہیے اور مل بیٹھ کر چھوٹے موٹے مسائل حل کرتے ہوئے مل کر آگے بڑھنا چاہیے۔
دونوں ممالک کے درمیان افغانستان کی سرحد کے نقطہ اتصال سے شروع ہو کر بحیرہ عرب تک صوبہ بلوچستان کے ساتھ متصل سرحد کا فاصلہ بھی طویل تر ہے۔ بلوچستان کے دورافتادہ شہر تفتان سے ایرانی شہر میرجاوا کی طرف پاک ایران سرحد کا واحد دروازہ کھلتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان نوشکی، چاغی، دالبندین اور نوکنڈی کی طویل سرحدی پٹی کچاوہ کے مقام پر تینوں ممالک کی مشترکہ سرحد بن جاتی ہے۔ دشوار گزار اور طویل سرحدوں کی مکمل نگرانی افغانستان میں تو بعیداز قیاس لیکن پاکستانی اور ایرانی حکام کیلئے بھی سردست ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتی ہے۔ دہشت گردی سے نبردآزما پاکستانی فرنٹیئر کور بلوچستان، افغانستان اور ایران سرحد پر تمام میسر وسائل کے ساتھ موجود ہے۔ مشکل زمینی حالات اور بعض دیگر وجوہ کی بنا پر نہ صرف عسکریت پسند بلکہ جرائم پیشہ عناصر ان دشوار گزار راستوں کو سرحدوں کے آر پار نقل و حرکت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اسلحہ، منشیات اور دیگر اشیاء  کے سمگلر تو دہشت گردی کے سرایت کرنے سے بہت عرصہ قبل بھی یہی راستے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایران کے صوبہ “سیستان۔بلوچستان‘‘ میں دہشت گردوں نے ایران کے سرحدی محافظوں پر حملہ کرکے دس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کچھ تناؤ پیدا ہوا۔آرمی چیف کا دورہ اسی تناؤ میں کمی لانے کی ایک کوشش تھی۔
پاکستان کی طرح ایران بھارت تعلقات کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے۔ ایران کے ساتھ بھارت کی سفارتی تاریخ 15مارچ 1950ء سے شروع ہوتی ہے۔سرد جنگ سے پہلے تک دونوں ملکوں کے تعلقات بہت اچھے رہے،لیکن سرد جنگ کے آغاز سے ہی چونکہ بھارت کی قیادت روس کی گود میں بیٹھی تھی اور ایران کاشہنشاہ اپنی پوری شان و شوکت کے باوجود امریکہ بہادر کا درباری راگ نواز تھا اس لیے دونوں ممالک کے تعلقات سردمہری کاشکار رہے۔1970میں شاہ ایران نے بھارت کادورہ بھی کیالیکن بات کچھ آگے نہ بڑھ سکی۔

1979کے بعد ایران کی نئی مذہبی قیادت نے ایک بار پھر دہلی سرکار کے دروازے پر دستک دینا شروع کی اور سالہاسال سے جمی برف پگھلنے لگی۔ خطے کے حالات کچھ اس سرعت سے بدلتے گئے کہ ایران اور بھارت تیزی سے ایک دوسرے کے قریب تر آتے چلے گئے۔ایران عراق جنگ میں پاکستان نے ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے فریقین میں صلح جوئی کی سرتوڑ کوششیں کی تھیں لیکن بھارت نے کھل کرایران کاساتھ دیاکہ امت مسلمہ میں صلح جوئی کامادہ بھارتی قیادت کو برداشت نہیں تھا۔افغانستان میں طالبان کی حکومت کےدوران میں ایران اور بھارت ایک بار پھربغل گیرہوگئے کہ طالبان کی مسلکی وابستگیاں ایران کو برداشت نہیں تھیں۔پاکستان چونکہ طالبان کی پشت پر تھا اس لیے طالبان مخالف قوتوں کی مددنے ایران کو مسلک کی بنیاد پر اور بھارت کو پاکستان دشمنی کی بنیادپر اکٹھاکردیا۔دہلی اورتہران کے درمیان دوستی کی پینگیں بڑھتی رہیں یہاں تک کہ دسمبر2002ء میں بھارت ایران پہلے دفاعی معاہدے پر دستخط بھی ہوگئے۔
ان معاہدوں کی کہانی کچھ یوں ہے کہ اپریل 2001میں نسلی امتیازات کے خاتمے کی کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی چارروزہ سرکاری دورے پر تہران پہنچے۔10اپریل کو بھارتی وزیراعظم اور ایرانی صدرمحمدخاتمی نے “تہران اعلامیہ” نامی ایک یادداشت پر دستخط کیے۔اس یادداشت میں دفاع کابراہ راست کوئی ذکرتونہیں کیاگیا لیکن علاقائی استحکام کے نام سے اور سرحد پار دہشت گردی کے ذکر سے اس معاہدے کے مندرجات کااندازہ کیاجاسکتاہے۔

9نومبر2002ء کو ایران اور بھارت کے درمیان ایک اور معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت سائینس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کریں گے،بھارتی وزیر مورلی منوہرجوشی اور ایرانی وزیر برائے سائینس و ٹیکنالوجی وتحقیق مصطفی معین نے تہران میں اس معاہدے پردستخط کیے۔19جنوری 2003ء کو بھارت کے مشہور اخبار “دی ہندو”نے ان پے درپے معاہدوں پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ماضی میں اگرچہ پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں لیکن اب ایران کے تعلقات کاواضح جھکاؤبھارت کی طرف ہوتا نظر آتاہے۔
جنوری2003ء میں ایرانی صدرمحمدخاتمی نے بھارتی یوم جمہوریہ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی،اس دورے کے دوران ایرانی صدر اور بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے “اعلان دہلی”نامی معاہدے پر دستخط کیے۔اس معاہدے کی رو سے بھارت اور ایران ایک دوسرے کے “دفاعی ساجھی”بن گئے۔دوماہ بعد ایرانی بحریہ اور بھارتی بحریہ نے مشترکہ جنگی مشقیں بھی کیں۔مشقوں کے اختتام پرایران نے بھارت سے جنگی ہتھیاروں کی ایک کھیپ خریدی اور اور بھارت نے ایران سے وعدہ کیا کہ ایرانی فوجی افسران کی تربیت کاانتظام بھی بھارت کی طرف سے یقینی طورپر کیاجائے گا۔اس کے بعد سے توگویاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس میں فوجی افسران کا آناجانا اور حساس معلومات کاتبادلہ تہران اور دہلی کے درمیان ایک معمول کی کاروائی کے طور پر چلتارہاہے۔اسی دوران بھارتی فضائیہ کے تکنیکی کارندوں نے ایران کے پاس موجود روسی ساختہ جنگی ہوائی جہاز مگ29کی مرمت جیسا بہت بڑا منصوبہ بھی مکمل کیا۔
جنوبی مشرقی ایران کی “چابہار”کی بندرگاہ جو پاکستان سے محض پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور خلیج میں واقع ہے جبکہ کھلے سمندروں تک جانے کا اپنے علاقے میں واحد راستہ ہے،اس بندرگاہ میں بھارتی دلچسپی کی وجہ نوشتہ دیوار ہے۔اس بندرگاہ کی تعمیرجدید کے لیے ایران اور بھارت کے درمیان پچاسی ملین ڈالرزکامعاہدہ طے پایاہے جس کے مطابق “کاندلہ پورٹ ٹرسٹ”(KPT)اور”جواہرلعل نہروپورٹ”  ٹرسٹ(JNPT)مل کراس بندرگاہ میں کام کریں گے۔یہ بندرگاہ بلوچستان کے قریب ترین ایرانی صوبے سیستان میں واقع ہے اور 1990ء سے بھارت اس بندرگاہ میں دلچسپی رکھتاتھا۔2002ء میں بھارت اور ایران میں معاہدہ ہوا کہ مل کر اس بندرگاہ کو گہرے پانیوں کی بندرگاہ بنائیں گے۔ماضی قریب میں ایران اور بھارت نے ایک اور معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں جس کے مطابق  چابہار کی بندرگاہ سے بھارت کوافغانستان تک براہ راست رسائی دی جائے گی۔15اگست2015کو ایرانی وزیرخارجہ محمدجواد ظریف نے نئی دہلی کادورہ کیااور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات بھی کی۔اس ملاقات کا سرفہرست نقطہ بھی چابہارکی بندرگاہ کی ترقی مزیدتھی۔اس دورے کے دوران ایرانی وزیرخارجہ نے بھارتی وزیربرائے کشتی رانی سے بھی ملاقات کی۔بھارت کو زمینی راستے سے افغانستان جانے کے لیے پاکستان کامحتاج ہونا پڑتاہے،چابہار کی بندرگاہ کے راستے بھارت کو افغانستان تک ایسی رسائی حاصل ہوگی جس میں وہ پاکستان کامحتاج نہیں رہے گا۔
ایران اور بھارت کئی معاملات میں اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ کشمیر کے معاملے پر ایران نے ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمایت کی ۔ اسی طرح سے بھارت کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جس پر ایران کو کافی تشویش ہے۔ اس کے باوجود دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو کافی آگے بڑھایا ہے۔
اگرچہ میڈیا میں چابہار کو گوادر کا حریف لکھا جارہا ہے لیکن ایرانی صدر روحانی نے اپنے افتتاحی خطاب کے دوران کسی بھی قسم کی رقابت یا حریف ہونے کے اندیشوں کو مسترد کردیا اور کہا کہ اس سے علاقہ کے ملکوں کے مابین باہمی مصروفیات اور اتحاد میں اضافہ ہوگا۔ روحانی نے کہا کہ “ہمیں مثبت مسابقت اختیار کرنا چاہئیے۔ ہم اس علاقہ میں دیگر بندرگاہوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم گوادر کی ترقی کا خیرمقدم کرتے ہیں”۔
ایرانی سرکاری ذرائع کے مطابق ان کا ملک ہر ملک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کیا جاسکے۔
چابہارمیں ایران بھارت مشترکہ منصوبے کے نتیجے میں بھارت کئی طرح کے فائدے حاصل کرسکتاہے۔سب سے بڑا فائدہ تواسے یہ ہوگا کہ پاکستان میں گوادرکی بندرگاہ وہ غیرموثر کردے گا۔گوادر کے ذریعے پاکستان جس بحری تجارتی شاہراہ کے خواب دیکھ رہاہے،چابہارکی بندرگاہ پر بھارتی قبضہ اس خواب کوکبھی شرمندہ تعبیر نہ ہونے دے گا۔چابہار پر تسلط کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بھارت کو مشرق وسطی تک بہت ہی مختصر فاصلے کی تجارت حاصل ہو جائے گی جس سے عرب ممالک سے تجارتی تعلقات کے ذریعے بھارت اپنی معیشیت کو بہت بڑھوتری فراہم کرسکتاہے۔بھارت کو اس اقدام سے تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان اورمشرق وسطی کے درمیان بحری،فضائی اور بری،کل آمدورفت اس کی دسترس میں آجائے گی۔چوتھا فائدہ بھارت کو یہ ہوگا کہ آسیان اور مشرق بعید کے ممالک کے ساتھ اس کے تجارتی روابط میں بہت تیزی آ جائے گی ۔
کیا یہ منصوبہ پایہ تکمیل ہوسکے گا ؟ اس منصوبے کو اصل خطرہ امریکہ سے ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ، اوباما دور میں ایران کے ساتھ کئے جانے والے جوہری معاہدے کو منسوخ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو بین الاقوامی کمپنیاں ایران سے ساتھ کاروبار نہیں کرسکیں گی۔ انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے ایرانی پروجیکٹس کو مکمل نہیں ہو سکیں گے۔ بندرگاہ کی تعمیر اور توسیعی منصوبہ جات کے دوسرے حصّوں کی تکمیل مشکل میں پڑ جائے گی۔ بھارت اس خطے میں امریکی حلیف ہے کیا وہ امریکی پابندیوں کے خلاف جاسکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے کچھ دیر انتظار کرنا ہوگا۔