counter easy hit

جلاد لال مسیح اب تک 750 افراد کو پھانسی لٹکا چکا ہے!پھانسی پانے والے قیدی اکثر آخری پیغام کیا دیتے ہیں؟

جلاد لال مسیح اب تک 750 افراد کو پھانسی لٹکا چکا ہے!پھانسی پانے والے قیدی اکثر آخری پیغام کیا دیتے ہیں؟
جلاد کو پھانسی دینے کا معاوضہ کتنا ملتا ہے؟
پھانسی دینے سے پہلے جلاد مجرم کے کان میں کیا کہتا ہے؟
اگر پھانسی کے بعد مجرم کی جان نہ نکلے تو کیا ہوتا ہے؟
پھانسی کے بعد مجرم کتنی دیر تک لٹکا رہتا ہے؟
مجرم کی موت کی تصدیق کس طرح کی جاتی ہے؟
پھانسی علی الصبح کیوں دی جاتی ہے؟

لال مسیح ایک’’ ریٹائرڈ جلاد‘‘ ہے اس نے اپنی 27 سالہ پولیس کی نوکری میں 750 لوگوں کو پھانسیاں دیں، یکی گیٹ لاہور میں 1955ء کو پیدا ہونے والا لال مسیح معروف جلاد تارا مسیح کا سالا ہے اور اپنے خاندانی جلاد ہونے پر آج بھی فخر کرتاہے۔تارا مسیح وہ جلاد ہے جس کے والد نے معروف حریت پسند باغی بھگت سنگھ کو پھانسی دی تھی اور خود تارا مسیح نے پاکستان کے مقبول ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا جس کا معاوضہ اُس دور کی حکومت وقت نے مبلغ 25 روپے ادا کیا۔ اپنے بہنوئی تارا مسیح کی وفات کے بعد لال مسیح 1984ء میں بطور جلاد پولیس میں بھرتی ہوا۔ جلاد کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک سفاک شخصیت کا تصور ابھرتاہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ صرف سرکاری احکامات کی پابندی کرتے ہیں، انہیں نہیں پتا ہوتا کہ جس کی زندگی کا یہ خاتمہ کرنے جارہے ہیں وہ سزا کا حق دار تھا یا نہیں۔انہیں صرف اپنی ڈیوٹی اد ا کرناہوتی ہے۔لال مسیح کے مطابق پاکستان میں پھانسی کے وقت چار لوگ مجرم کے پاس موجود ہوتے ہیں جس میں کیس کا جج، ایس پی اور کچھ پولیس کے آدمیوں کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی شامل ہوتا ہے۔ عموماً ایس پی، پھانسی پانے والے سے اس کی آخری خواہش پوچھتا ہے ، زیادہ تر مجرم اپنے بچوں کو پیار پہنچانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ 1985تک پھانسی کا یہ عمل مجرم کے لواحقین کو بھی لائیو دیکھنے کی اجازت تھی تاہم سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے پہلی بار یہ آرڈر دیے کہ لواحقین کو اپنے پیاروں کی پھانسی کا سارا عمل دکھانے کی بجائے صرف ڈیڈ باڈی ان کے حوالے کی جائے۔لال مسیح کے مطابق جب مجرم کو پھانسی گھاٹ کے سامنے لایا جاتا ہے تو اسے ایک کالے رنگ کا ماسک پہنا دیا جاتا ہے تاہم مجرم اس ماسک میں سے باہر کا دھندلا سا منظر دیکھ سکتا ہے۔جب مجرم کو ماسک پہنایا جاتا ہے توپھانسی گھاٹ پر گھمبیر خاموشی چھا جاتی ہے حتیٰ کہ ایس پی صاحب بھی پھانسی کی اجازت محض ہاتھ ہلا کر دیتے ہیں۔لال مسیح نے بتایا کہ مجرم کو پھانسی گھاٹ پر لانے کے بعداس کی گردن میں رسی باندھنا بھی جلاد کے فرائض میں شامل ہے ، یہ رسی اس انداز سے باندھی جاتی ہے کہ کسی بھی صورت مجرم کا سر اس کی گرہ میں سے نہ نکل سکے۔جب لال مسیح کسی مجرم کو پھانسی دینے کے لیے لیور کھینچنے لگتا تو اس کے کان میں آہستہ سے کہتا ’’مجھے تمہاری موت کی نہ کوئی خواہش ہے نہ سروکار، میں تو صرف اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہوں‘‘ یہ سب کچھ چیک کرنے کے بعد وہ لیور کے سٹینڈ کے پاس چلا جاتا اور ایس پی کی اجازت کا انتظار کرتا ۔اجازت ملتے ہی لال مسیح لیور کھینچتا اور مجرم کے پیروں کے نیچے سے تختہ کھل جاتا ، مجرم کی گردن لکڑی کے فریم میں پھنس جاتی اور اس کا جسم تقریباً پانچ فٹ نیچے ہوا میں لٹکنے لگتا ۔ لال مسیح کے مطابق پھانسی پانے والے کے جسم کو تیس منٹ تک لٹکائے رکھنا ضروری ہوتاہے ، اس کے بعد اس کے لٹکے ہوئے جسم کے ہاتھ کالے ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے، بعد ازاں ڈاکٹر مجرم کی موت کی تصدیق کرتاہے، متعلقہ جج کاغذات پر سائن کرتا ہے اور لاش ورثا کے حوالے کر دی جاتی ہے ۔لال مسیح نے بے شمار قاتلوں سے لے کر ، ٹاپ کے دہشت گردوں اور اشتہاریوں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسیاں دیں جن میں کئی پھانسیاں اس نے سرعام دیں۔لال مسیح کی تنخواہ 450 روپے تھی تاہم اسے پورا پاکستان گھومنے کا موقع ملا کیونکہ عموماًمجرم کو اس کے علاقے کی قریبی جیل میں ہی پھانسی دی جاتی ہے اس لیے جہاں جہاں پھانسیاں ہوتی تھیں لال مسیح کو طلب کرلیا جاتا تھا۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں فی پھانسی جلاد کو دس ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن کی 2013 کی رپوٹ کہتی ہے کہ پاکستان میں 6218 سزائے موت کے قیدی اپنی پھانسی کے منتظر ہیں۔انڈیا میں تو پیشہ ور جلادوں کی سخت کمی محسوس کی جارہی ہے ، اگر پاکستانی جلاد کا معاوضہ بھی انڈین جلاد کے مطابق ہوجائے توآج کی تاریخ میں ساری پھانسیاں دینے کے بعد جلاد کو ملنے والی ممکنہ رقم لگ بھگ 6 کروڑ بنتی ہے۔۔۔!!!لال مسیح کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ’’جلادی‘‘ دور میں ڈاکٹر، بینکار اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی تختہ دار پر لٹکایا ہے۔اس نے بتایا کہ سر عام پھانسیاں عام طور پر جنوبی پنجاب میں دی جاتی رہی ہیں جس میں مظفر گڑھ ، میانوالی اور ملتان شامل ہیں، اس کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ ایک موٹے مجرم کو پھانسی دینے کے لیے لیور کھینچا تو تو رسی ہی ٹوٹ گئی تاہم ایسی صورت میں پھر یہ پولیس کا کام ہوتا ہے کہ وہ آدھے مرے ہوئے مجرم کو دوبارہ پھانسی گھاٹ پر لے کر آئے۔ لال مسیح کے مطابق کم وزن والے مجرم اکثر رسی کے ساتھ لہراتے رہتے تھے لیکن ان کی جان نہیں نکلتی تھی لہذاان کی تکلیف ختم کرنے کے لئے اسے حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نیچے جائے اور مجرم کے پاؤں پکڑ کر خود بھی لٹک جائے۔ یوں 110 کلوگرام کا لال مسیح جب دبلے پتلے مجرم کے پیرپکڑ کر لٹکتا تھا تو واقعی مجرم کی ’’تکلیف‘‘ رفع ہوجاتی تھی۔
پھانسی دینے والے شخص کو رسہ کہاں ڈالنا ہے اور اس کی گانٹھ کہا ہونی چاہئے یہ سب کچھ ہمیں سکھایا جاتا ہے لیکن یہ حکومت سطح پر نہیں بلکہ خاندانی سطح پر سکھایا جاتا ہے۔ جلاد نے پھانسی دینے کی تکنیک بتاتے ہوئے کہا کہ رستے کو ایسے طریقے سے مجرم کے گلے میں پھنسایا جاتا ہے کہ اس کی گانٹھ دائیں کان کے نیچے نرم جگہ پر لگی رہے، ایسی صورت میں گردن کا منکا ٹوٹ جاتا ہے اور قیدی کی جان جلدی اور آسانی سے نکل جاتی ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو منکا نہیں ٹوٹتا اور عموماََ قیدی کا صرف سانس بند ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ کافی دیر پھڑکتا اور اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔ بعض اوقات رسہ درست نہ لگایا جائے تو قیدی کی گردن کٹ جاتی ہے اور خون رسنا شروع ہو جاتا ہے ،عموماََ شہ رگ کٹ جاتی ہے اس لئے جلاد کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اس بات کا خاص خیال رکھے کہ رستہ درست پہنایا جائے۔ جلاد کے پاس پھانسی دینے والے شخص کیلئے آدھا منٹ سے بھی کم وقت ہوتا ہے اس میں وہ قیدی کے سر پر ٹوپی(ماسک )چڑھاتا ہے اور اس کے بعد گلے میں رسہ ڈال کر لیور کھینچنا شامل ہے۔ ایک پھانسی پانے والے مجرم کیلئے ضروری ہے کہ اسے 25منٹ تک لٹکایا جائےلیکن جلاد کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی جان کب نکلی ۔ کہا جاتا ہے کہ پھانسی پانے والے مجرم کے مرنے کی نشانی یہ ہوتی ہے ہے کہ اس کے ہاتھ کالے ہو جاتے ہیں لیکن یہ بات درست نہیں ، پھانسی صبح صادق کے وقت پو پھوٹنے سے قبل دی جاتی ہے۔ پھانسی دینے کے بعد رسہ جھول رہا ہوتا ہے جیسے ہی رسہ ساکن ہوتا ہے جلاد کو پتہ چل جاتا ہے کہ قیدی کی جان نکل چکی ہے۔پھانسی کے بعد ڈاکٹر تصدیق کرتا ہے اور سب سے پہلے قیدی کے ٹخنے پر زور لگاتا ہے پھر اس کے بعد نیچے اتار کر تسلی سے اس کا چیک اپ کرتا ہے کہ کہیں جانی باقی تو نہیں مگر جلاد اپنے تجربے کی بنیاد پر دیکھ لیتا ہے کہ قیدی کی جان کس وقت نکلی ۔ بعض قیدیوں کی جان جلدی نکل جاتی ہے اور بعض کی بہت مشکل سے نکلتی ہے۔ جلاد کا کہنا تھا کہ پھانسی کے رسے کے ساتھ ایک فالتورسہ بھی لٹکایا جاتا ہے کیونکہ جج اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ اس وقت تک لٹکائو جب تک جان نہ نکلے ، یہ بات بالکل غلط ہے کہ رسہ ٹوٹنے پر قیدی کو چھوڑ دیا جاتا ہے، رسہ چاہے 4بار ہی کیوں نہ ٹوٹے جان ضرور نکالی جاتی ہے۔ ویسے تو رسہ ٹوٹنا ناممکن ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ رسہ ہوتا ہے جس سے دس وہیلر ٹرک کھینچا جاتا ہے۔
لال مسیح بڑے فخر سے بتاتا ہے کہ ایک دفعہ میں نے ایک ہی وقت میں پانچ آدمیوں کو ایک ساتھ پھانسی دی۔ اُس نے بتایا کہ اس نے زندگی میں سب سے کم عمر پھانسی ایک لڑکے کو دی جس کی عمر 16-17 سال تھی اور وہ اپنی منگیتر کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار ہوا تھا اور سب سے زیادہ عمر کی پھانسی تقریباً 55 سالہ شخص کو دی جس نے اپنے بھائی کا قتل کیا تھا۔ا س نے کہا کہ سب سے بہادر وہ شخص تھا جو لاہور ہائیکورٹ بم دھماکے میں ملوث تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لئے بھی خوف نہ دکھایا، اس کا نام محرم علی شاہ تھا، لال مسیح نے کہا کہ جب میں نے اس کے کان میں جا کر کہا کہ میں صرف حکم کی تعمیل کرنے جا رہا ہوں تو محرم مسکرایا اور اس نے کہا
”حکم کی تعمیل کرو” ۔ لال مسیح کو ایک دفعہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنے ایک رشتہ دار کو بھی پھانسی دینا پڑی۔
نوٹ: ایک سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ پھانسی علی الصبح ہی کیوں دی جاتی ہے؟
۔ مختصرا” یہ ہے کہ
پھانسی کے لئے صبح کا وقت ہوتاہے کیونکہ اس وقت انسان کے جسم کے اعضاء سکون میں ہوتے ہیں اور اس کو تکلیف کم ہوتی ہے جب کہ اس کی نسبت دن میں اعضاء سخت ہوتے ہیں اور تکلیف زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ مجرم کے حمایتوں کی طرف سے غم و غصہ کرنے کا خطرہ ہوتا ہے جب کہ صبح کے وقت سب سو رہے ہوتے ہیں اس لئے صبح کو وقت پھانسی دینے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے ۔ یہ انگریزوں کے دور سے چلا آرہا ہے کیونکہ انگریزوں کی دی گئ اکثر پھانسیوں پر عوام کے رد عمل اور شدید احتجاج کا خدشہ ہوتا تھا اس لئے ایسا وقت مقرر کیا گیا جس وقت عوام محو خواب ہوں۔
بشکریہ:اردوصفحہ.کام
انتخاب: