counter easy hit

ہم اور ہماری نئی نسل

ہم جس دین کے پیرو کار ہیں اس کی بنیاد ہی برداشت پر ہے، ہمارے انبیاء علیہ السلام پر ہر دور میں مظالم کی انتہا کی گئی لیکن انھوں نے ان مظالم کے خلاف کبھی اُف تک نہ کی اور ان کی اسی برداشت نے کفار کو اللہ کے دین کی جانب راغب کیا اور وہ واحدہ لاشریک پر ایمان لے آئے اس کے لیے ہمارے انبیاء نے ہر طرح کے ظلم اور طعنے برداشت کیے۔ ہمارے نبی آخر الزمان محمد ﷺ پر ہرروز گندگی پھینکی جاتی تھی، ان کو چاند دو ٹکڑے کرنے پر جادوگر تک کہا گیا لیکن برداشت کی انتہا تھی کہ آپ نے کبھی اُف تک نہ کی اور آپﷺ نے اپنے دور میں ان سب کو معاف کر دیا۔ یہی برداشت کا بہت بڑا سبق ہے جو ہمارے نبیﷺ نے ہمارے لیے چھوڑا اور یہ تک کہا گیا کہ معاف کر دینا ہی سب سے بہتر عمل ہے۔

یہ تو وہ باتیں ہیں جو ان لوگوں کے دور میں تھیں جن کی زندگیاں ہمارے لیے مثال ہیں اور ہم ان مثالوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں یا کرنی چاہیے تا کہ اسلامی اعتبار سے ہم اپنے آپ کو اس معاشرے کا ایک اچھا شہری ثابت کرسکیں لیکن ہمارے ہاں ناانصافی اس قدر بڑھ چکی ہے جس نے بطور قوم ہم سب پر اور معاشرے پر بہت گہرا اثرا ڈالا ہے اور اسی ناانصافی کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ بڑھنے کے ساتھ نہایت خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

جس سے لاتعداد خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اور یہ خرابیاں معاشرتی برائیوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں ۔معاشرے میں بے یقینی اور بے اعتباری کی کیفیت اس قدر زیادہ ہو گئی ہے کہ اس کی وجہ سے عدم برداشت بالکل ختم ہو کر رہ گئی ہے اور عدم برداشت کی وجہ سے معاشرے میں عدم تحفظ اور عدم اعتماد کی وجہ سے معاشرتی خرابیوں کی نت نئی خبریں اسی عدم برداشت کا شاخسانہ ہیں۔ ہمارا خاندانی نظام جس کی بنیاد پر معاشرہ کی زندگی برقرارہے لیکن اس میں بھی توڑ پھوڑ شروع ہو چکی ہے اور اس کی وجہ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے ایک دوسرے کی بات نہ ماننا یا برداشت نہ کرنے کی برائی ہم میں اس بری طرح سرایت کرتی جا رہی ہے کہ جانتے بوجھتے بھی ہم اس کا شکار بنتے جا رہے ہیں اور اپنے معاشرتی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔

ایک خبر نظر سے گزری ہے کہ خواتین کی جانب سے خلع لینے کا رجحان بڑھ گیا ہے اور روزانہ کئی درخواستیں طلاق کے حصول کے لیے فیملی عدالتوں میں دائر کی جاتی ہیں اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ان درخواستوں میں زیادہ تر تعداد ان خواتین کی ہے جو پڑھی لکھی ہیں حالانکہ ہمیشہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک پڑھا لکھا آدمی زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے والدین کی تو بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں تا کہ ان کی عملی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں اور وہ مشکلات سے دور رہیں لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اچھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمارے بچے اس تعلیم کا معاشرے کی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال نہیں کر رہے بلکہ وہ اپنی تعلیم کو اپنی انا بنا کر اپنی عملی زندگی کو دشوار بنا رہے ہیں ۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ بھارتی لیڈر سونیا گاندھی نے ایک دفعہ پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ ہمیں اب پاکستان سے روائتی جنگ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم نے پاکستانی معاشرے کی اقدار کو تباہ کرنے کے لیے غیرروائتی جنگ شروع کررکھی ہے اور اس کا واحد ذریعہ بھارت کے پاس ٹیلیویژن ہے جس کے ذریعے وہ ہمارے گھر گھر میں اپنے ڈرامے پہنچا کر ہماری سماجی روایات کو تباہ کر رہا ہے ۔ ہو یہ رہا ہے کہ ان ڈراموں کی غیر حقیقی کہانیوں نے ہماری نوجوان نسل کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے اور وہ عملی زندگی میں بھی ان کہانیوں کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا حقیقی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، اس کے نہایت بھیانک نتائج برآمد ہو رہے ہیں، ہمارا معاشرہ ایک ایسی ڈگر پر چل پڑا ہے جس کا ہمارے ہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا آئے روز کی گھریلو لڑائیاں اسی غیر حقیقت پسندانہ زندگی کی وجہ سے ہیں، ہم حقیقت میں رہنے کے بجائے ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ایک ایسے سراب کے پیچھے۔

جس تک ہم پہنچ ہی نہیں سکتے لیکن اس کے لیے ہم اپنا سب کچھ داؤ پر لگا رہے ہیں اور وہ معاشرتی اقدار جن کا ہم بڑے فخر سے ذکر کرتے تھے کہیں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہمارے والدین اپنے بچوں اور خاص طور پر لڑکیوں کو مائیں یہ نصیحت کرتی تھیں کہ شادی کے بعد ان کی سسرال سے واپسی ان کے جنازہ کی صورت میں ہی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ جیسے بھی حالات ہوں نباہ کرنا ہے اور ہماری بیٹیاں اپنی ماؤں کی یہ بات پلے باندھ کر نباہ کرتی تھیں۔

اب یا تو وہ مائیں نہیں رہیں جو اپنی بیٹیوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ اپنی ازواجی زندگی خوشگوار طریقے سے گزار سکیں لیکن کیا اولاد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد سر پھری ہو گئی ہے اور اپنی زندگیاں تباہ کرنے پر تل گئی ہے، نتائج کی پرواہ کیے بغیر میاں بیوی ایک دوسرے کا بازو بننے کے بجائے یہ بازو اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس سے معاشرے میں بہتری کے بجائے ابتری آرہی ہے اور اس میں متاثر سب سے زیادہ وہ بچے ہو تے ہیں جن کے والدین کسی نہ کسی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ ہو چکے ہوتے ہیں اور پہلے پہل تو بچوں کے حصول کے لیے لڑائی جاری رہتی ہے اور بچے جن کی نشوو نماء والدین کی ناچاقی کے دوران ہو ان کی اچھی تربیت ناممکن ہے بلکہ وہ بڑے ہو کر اپنی ان محرومیوں کا بدلہ معاشرہ سے لیتے ہیں۔

خاندان ریاست اور معاشرے کی بنیادی اکائی ہے شہریوں کی بنیادی تربیت اور سماجی و سیاسی رویوں کی نشوو نما میں خاندان کا کردار اہم ترین ہے اور ہم مشرق کے رہنے والے اپنے خاندانی نظام کا بہت فخر سے ذکر کرتے ہیں اور اس بات پر نازاں رہتے ہیں کہ ہمارا خاندانی نظام دنیا کا بہتریں نظام ہے جس میں سب مل جل کر ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس خاندانی نظام کو بھی کسی کی نظر لگ گئی ہے یا ہم مغرب کی تقلید میں چلے گئے ہیں کہ اپنی اقدار کو بھول گئے ہیں ۔ ہمارے ہاں خاندان کے ادارے کی تباہی کو اجتماعیت کی تباہی سے عبارت کیا جاتا ہے، ماں اور باپ دونوں بچوں کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ خلع کی بڑھتی ہوئی شرح کو کیسے کنٹرول کیا جائے ہم سے کہاں پر کوتاہی ہو رہی ہے کیونکہ یہ کوتاہی ایسی نہیں اس کو فوراً درست کر دیا جائے بلکہ اس کے لیے نسلوں کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ٹوٹے ہوئے گھروں کے بچے ٹوٹی اور بکھری شخصیات کے مالک ہوتے ہیں ان کی شخصیت کو بچانے کے لیے ہمیں ان کی درست تربیت پر توجہ دینی ہو گی۔