counter easy hit

اردو سقوط دکن کے بعد

اورنگ زیب کے دور میں متعدد شعرا مدراس ، ارکاٹ اور میسور جیسے شہروں میں جابسے جہاں سے اردو کو فروغ حاصل ہوا

Urdu after the dropp off of Dakkanسقوط دکن سے 1857ء تک ہندوستان میں ترکوں کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد گجرات میں گجراتی، بنگال میں بنگالی، سندھ میں سندھی، دہلی میں کھڑی بولی، متھرا میں برج بھاشا، اودھ میں اودھی اور دکن میں دکنی یا قدیم اردو کو فروغ حاصل ہوا اور ان کے لکھنے کے لیے ابتدا میں بالعموم فارسی رسم الخط استعمال کیا گیا۔ سکندر لودھی 1488۔ 1518ء کے زمانے میں تو فارسی رسم الخط میں ہندوستانی آوازیں مثلاً ٹ، ڈ، ڑ بھی شامل ہوگئی تھیں۔

دکنی یا ہندوی کا لفظ کبھی کبھی فارسی ادب سے ممیز کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں دکنی ریاستوں کی بدولت قابل توجہ ادب کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اور نگ زیب نے 1686ء میں بیجا پور اور اس کے ایک سال بعد گول کنڈہ پر قبضہ کر لیا اب کابل سے کاویری تک مغلوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔ یہ واقعہ سیاسی اعتبار ہی سے نہیں بلکہ تہذیبی اور لسانی نقطہ نظر سے بھی اہم ہے۔ اور نگ زیب نے اورنگ آباد کو اپنا دوسرا دارالخلافہ بنایا جو محمد بن تغلق کی انتظامیہ کے مرکز یعنی دولت آباد سے صرف چند میل پر واقع ہے۔ اس لیے اور نگ آباد کی زبان دکن کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں دہلی سے قریب ہے۔

دکن کا دہلی کے رشتے میں منسلک ہو جانا معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ فوج کشی 1681ء میں شروع ہوئی اور 1690ء میں پورا دکن اور نگ زیب کے قبضہ اختیار میں تھا۔ گول کنڈہ اور بیجا پور کی ریاستیں ہمیشہ کے لیے نابود ہو گئیں اور اور نگ آباد مغلوں کا دکنی دار السلطنت بن گیا۔ مغلوں کے تسلط نے اس علاقے کا رشتہ نواح دہلی کی زبان سے ، جو اردو کا مولد و مصدر تھا، پھر قائم کردیا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ شعرا اور نثر نگار جو نئے حالات سے مقابلہ یا مفاہمت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ جنوب بعید، یعنی مدراس، ارکاٹ، میسور اور ویلور کے علاقے میں جا بسے۔

اس سے بھی اردو شعر و ادب کی نشر و اشاعت ہوئی اور ان علاقوں میں اردو اپنی تمام پرانی ادبی روایات کے ساتھ ایک صدی تک رائج رہی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ویلور، مدراس اور میسور میں قدیم دکنی اردو فروغ پاتی رہی۔ اور نگ آباد اور حیدرآباد کے علاقوں میں وہ تازہ زبان دہلی جو شمالی ہند میں بہت سے تشکیلی مراحل سے گزر چکی تھی پھولتی پھلتی رہی۔ اس لیے کہ مغلوں کے ساتھ دہلی کے بہت سے باشندے آ کر دکن میں بس گئے تھے۔ اسی لسانی رجحان کا نمائندہ ولی دکنی ہے۔