counter easy hit

میاں صاحب کی سنگ باری

فارسی کا ایک مقولہ ہے ’’ تدبیر کند  بندہ  تقدیر  زند  خندہ‘‘ اس قو ل کی حقیقت ہمار ے موجودہ سیاسی حالات کے عین مطابق ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے سوچا توکچھ اور تھا ہو کچھ اور گیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا تھا کہ ’’اپنے ارادوں کی ناکامی سے میں نے اپنے رب کو پہچانا‘‘۔

جب سے صحافت شروع کی ہے پاکستان میں بلی چوہے کا کھیل ہی جاری ہے یعنی سیاستدانوں اور فوجیوں کا کھیل ہی دیکھ رہے ہیں، یہ کہنا بہت ہی مشکل ہے کہ ان میں سے بلی کون ہے اور چوہا کون؟ کیونکہ دونوں میں دونوں قسم کی صفات پائی جاتی ہیں ،ان میں قدر مشترک کبھی دوستی کبھی لڑائی ہے، فوجی ہمیشہ سیاستدانوں کے تعاون سے آتے ہیں اور سیاستدانوں کے تعاون سے ہی اپنے  اقتدار کی ’مدت‘ پوری کرتے ہیں ۔

پہلے فوجی حکمران سے لے کر آخری فوجی حکمران تک ہم نے یہی دیکھا ہے کہ فوجی تو فوجی ہی ہوتا ہے جو زور زبردستی کرتا ہے اور ان کو اس بات کا اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ اس زور زبردستی کا کوئی آئینی و اخلاقی جواز موجود نہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو  ہماری دیکھی بھالی اور کھلی جیتی جاگتی تاریخ ہے جو  ابھی تک ہمارے دل و دماغ میں زندہ ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدان جو  خود کو جمہوریت پسند کہتے نہیں تھکتے وہ کسی فوجی آمر سے تعاون کیوں کرتے ہیں، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ سیاستدان خود ہی کسی آئین اور قانون کو دل سے تسلیم نہیں کرتے اور جب بھی ان کو موقع ملتا ہے یہ اقتدار کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے ہیں ، صرف چند گنے چنے سیاستدان بچ جاتے ہیں جن کو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقت میں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔

ویسے سیاستدانوں کی اکثریت اور فوج میں کوئی فرق نہیں ہے خصوصاً ان دنوں جو سیاستدان سہمے لہجوں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں فوج کو اپنی بیدخلی کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں، یہ بذات خود فوج کی خدمت میں حاضر رہے ہیں بلکہ حاضر کیا رہے ایک وقت تھا یہ سیاستدان ایک دوسرے پر اس حاضری میں بازی لے جانے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے۔

ہمارے اکثر پاکستانیوں نے ان سیاستدانوں کو دیکھا ہے اور میں تو ان بد نصیب لوگوں میں سے ہوں جنہوںنے اپنی صحافتی ذمے داری رپورٹنگ کے دوران ان سیاستدانوں کو قریب سے دیکھا بھی اور ان کی سیاست کا گواہ بھی ہوں کہ میں واحد رپورٹر تھا جس کا اخبار ان سیاستدانوں کی خبریں چھاپتا تھا لیکن اس میںمیرا کوئی کمال نہیں تھا حالات اور اتفاقات ہی ایسے تھے کہ مجھے اس وقت اپوزیشن کا چیف رپورٹر کہا جاتا تھا ۔

جب لکھتے لکھتے پرانی باتیں یاد آنا شروع ہو جائیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں، شاید میں بھی اپنی بھر پور ذہنی جوانی میں بوڑھا ہو گیا ہوں کہ اب اس عمر میں گھٹنے تو ساتھ نہیں دیتے لیکن ذہن اور دل ابھی تک  جوان ہے بس آزمائش کی شرط ہے۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا بات میں یہ کر رہا تھا کہ آج کل نواز لیگ نے اپنے ملک کے اداروں کے خلاف ہی محاذ کھولا ہوا ہے اور ہر بات کی تان میں نہ مانوں پر آکر ٹوٹتی ہے اور عدالتی فیصلے کی صورت میں نااہلی کو عوام سے جوڑنا سمجھ میں نہیں آرہا اور حال ہی میں لاہور میں ہونے والے الیکشن میں نواز لیگ کی جیت کو اس عدالتی فیصلے کے خلاف فیصلہ قرار دیا جارہا ہے کہ عوام نے نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے کو رد کر دیا اور بیگم کلثوم نواز کو ان کے آبائی حلقہ سے منتخب کردیا۔

میاں نواز شریف نے محاذ آرائی کی سیاست شروع کی ہوئی ہے وہ سیاسی پتھر بھی پھینک رہے ہیں مگر ان کا کوئی بھی پتھر نشانے پر نہیں لگ رہا اور نہ ہی لگنے کی امید ہے بس ان کی طرف سے مسلسل پتھراؤ جاری ہے او ر اب تو یہ خطرہ بھی ہے کہ کہیں یہ پھینکے گئے پتھر واپس ہی نہ آجائیں۔

ہمارے سیاستدانوں کے لیے تب تک سب کچھ ہرا ہرا ہے جب تک وہ اقتدار میں ہیں اور اقتدار سے باہر ان کو یہ ہرا ہرا برا برا لگنا شروع ہو جاتا ہے او ر وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے اپنے ہی اداروں کو اپنی تنقید کا ہدف بنا لیتے ہیں اور یہ کہنا شروع ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو گئی اور اس کے پیچھے کچھ نادیدہ  قوتیں ہیں،یہ وقت ان باتوں کا نہیں بلکہ اگر آپ نے ابھی بھی کھل کر بات نہ کی تو پھر میاں صاحب آپ کی سیاست کا اللہ ہی حافظ ہے، کھل کر بات کیجیئے آپ کی خوش قسمتی ہے کہ ابھی بھی آپ کی پارٹی کی حکومت برقرار ہے اور صوبوں میں بھی آپ کے وزراء اعلیٰ حکمران ہیں ۔

آپ کو سیاسی میدان کھلا ملا ہوا ہے، اس میدان جو چاہیں اور جیسے چاہیں کھیلیں لیکن ایک بات کا خیال رہے کہ ملکی سلامتی کے ادارے ہماری سلامتی کے ضامن ہیں، ایک طرف مسلمان اور خصوصاً پاکستان ہے جس کے خلاف بقول آپ کے گھیرا تنگ کیا جارہاہے اور کچھ نایدیدہ خطرات منڈلا رہے ہیں اور ایک طرف خونخوار امریکا ہے جو اس تاک میں ہے کہ ہم اندرونی طور پر ذرا سا ڈولیں تو وہ ہمیں اپنا کھلونا بنا لے، اس لیے اس وقت یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ملک کو چلنے دینا چاہیے، یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ فلاں فلاں ہو تو ملک چلے نہ ہو تو ملک نہ چلے۔

عرض ہے کہ اس ملک پر رحم کیجیے اپنی ذاتی انا کو پیچھے چھوڑ کر اس ملک کو آگے جانے دیں، آپ اسمبلیوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کے ذریعے اصلاحات کریں اور اپنے آپ کو مضبوط کریں، انھی اسمبلیوں نے آپ کو دوبارہ لے کر آنا ہے، ا س لیے پار لیمنٹ جتنی مضبوط ہو گی سیاست اور جمہوریت پھلے پھولے گی، پارلیمنٹ کو یاد رکھیئے اور اس کی مضبوطی کے لیے کام کیجیے کہ پارلیمنٹ ہی سیاستدانوں کی بقاء کی ضامن ہے ، اسی میں سیاستدانوں کو پناہ مل سکتی ہے۔