counter easy hit

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی

امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جس لاابالی پن کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ وہ نہ صرف متنازعہ بن گئے بلکہ امریکی عوام کی اکثریت بھی ان کے خلاف ہوگئی۔ امریکا میں صدرکے انتخاب میں الیکٹورل سسٹم نہ ہوتا تو ٹرمپ صدارتی انتخاب ہار چکے ہوتے کیونکہ ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرلیے تھے۔ ٹرمپ کی کامیابی کے اعلان کے بعد امریکا کے کئی شہروں میں جن میں واشنگٹن اور نیویارک بھی شامل ہیں پر تشدد مظاہرے ہوئے جو امریکا کی سیاسی تاریخ کا منفرد واقعہ تھے۔

ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران امریکا میں آباد غیر ملکی مہاجرین کو ملک سے نکالنے کا دو ٹوک اعلان کیا اور مسلمان کمیونٹی کے خلاف بھی سخت موقف اختیارکیا جس کی وجہ امریکا میں عشروں اور نسلوں سے آباد تارکین وطن میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور تارکین وطن ٹرمپ کے خلاف ہوگئے۔ ٹرمپ ایک کاروباری آدمی ہے اورکاروبار میں وہ اس قدرکامیاب رہے ہیں کہ ان کا شمار امریکا کے دوسرے دولت مند صدر میں ہوتا ہے لیکن ٹرمپ کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے۔

اسی حوالے سے دنیا اس تشویش میں مبتلا تھی کہ صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ اوٹ پٹانگ سیاست کا مظاہرہ نہ کریں بلاشبہ امریکا کا صدر بہت طاقتور ہوتا ہے لیکن جمہوری نظام میں صدرکی طاقت بے لگام نہیں ہوتی ۔کابینہ ایوان نمایندگان اور سینیٹ جیسے ادارے امریکی صدر کے منہ میں لگام کی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر حکومت کو گائیڈ لائن فراہم کرنے والے تھنک ٹینک بھی بہت طاقتور ہوتے ہیں جو بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ ہوتے ہیں۔ صدر اوباما کے آٹھ سالہ دور ہی میں امریکا کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی تھی۔ اوباما نے اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ عراق اور افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں گے، عراق سے تو تمام فوجیں بلالیں اورافغانستان سے بھی ایک چھوٹی سی تعداد کے علاوہ امریکی فوجیں اور فوجی سامان واپس منگوا لیا گیا۔

بش حکومت نے 9/11 کی خفت مٹانے کے لیے عراق پر جو حملہ کیا تھا وہ امریکا کو اس قدر مہنگا پڑا کہ عراقی جنگ پر صرف ہونے والے کھربوں ڈالر نے امریکی معیشت کی چولیں ہلادیں بلاشبہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہتھیاروں کی صنعت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور اس صنعت میں کھربوں کا سرمایہ لگانے والے اربوں ڈالر کماتے ہیں اور ہتھیاروں کی فروخت کے لیے جنگوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اس لیے سرمایہ دارانہ نظام کے پالیسی ساز ادارے علاقائی جنگوں کی سرپرستی ہی نہیں کرتے بلکہ علاقائی جنگیں پیدا بھی کرتے ہیں کہ ہتھیاروں کی کھپت کا سلسلہ جاری رہے عراق اور افغانستان کی جنگوں کے پیچھے بھی ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے مقاصد کارفرما رہے ہیں لیکن ان جنگوں نے جہاں امریکی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا وہیں ساری دنیا میں امریکا کو رسوا بھی کیا۔ یہی وہ پس منظر تھا جس نے اوباما کو مجبورکیا کہ وہ عراق اور افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلالیں۔

نومنتخب امریکی صدر نے امریکا کی نئی خارجہ پالیسی کے حوالے سے یہ اعلان کیا ہے کہ اب امریکا کو بیرونی دنیا میں مداخلت کو ختم کرنا ہوگا اب امریکا نہ آزاد ملکوں کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے گا نہ تختہ الٹنے کی کسی کوشش میں حصہ لے گا۔ اب امریکا کی ساری کوشش مذہبی انتہا پسند تنظیم داعش کو ختم کرنے پر مرکوز رہے گی۔

امریکا کی ساری تاریخ آزاد ملکوں میں مداخلت کی تاریخ ہے جو سامراجی ذہنیت کا لازمی حصہ ہے ویت نام کی جنگ ہو یا انڈونیشیا کے معروف صدر سوئیکارنوکی حکومت کا تختہ الٹنا ہو یا ایران میں ایک سخت گیر امریکی ایجنٹ شہنشاہ ایران کی حمایت وحفاظت ہو یہ سارے مظاہرے امریکا کی سامراجی ذہنیت کے شاہکار رہے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ سازوں کو اب اس حقیقت کا ادراک ہو رہا ہے کہ اس خارجہ پالیسی کا امریکا کو فائدہ کم نقصان زیادہ ہوا ہے مالی نقصان کے علاوہ ساری دنیا میں بدنامی نے امریکی پالیسی سازوں کو خارجہ پالیسی پر نظرثانی کے لیے مجبورکردیا ہے ٹرمپ کی مبینہ خارجہ پالیسی اوباما کا تسلسل ہی ہے۔

ٹرمپ کا یہ اعلان حوصلہ افزا ہے کہ اب امریکا بیرونی ملکوں میں مداخلت نہیں کرے گا، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ بیرونی ملکوں میں فوجی مداخلت کے علاوہ ایک انتہائی خطرناک مداخلت بیرونی ملکوں کی معیشت میں مداخلت ہے اور یہ مداخلت امریکی حکمران طبقہ عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے کرتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے پسماندہ اور غریب ملکوں کی معیشت امریکا کے مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کے رحم و کرم پر ہوتی ہے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا بجٹ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق بنایا جاتا ہے۔ کیا ٹرمپ بیرونی ملکوں میں فوجی مداخلت کے ساتھ ساتھ مالی شعبوں میں امریکی مداخلت بھی بند کریں گے۔

بیرونی ملکوں میں فوجی مداخلت نہ کرنے کی پالیسی سے ہتھیاروں کی صنعت پر یقینا فرق پڑے گا۔ کیا امریکی اور ترقی یافتہ مغربی ملکوں کی ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان بلکہ طاقتور مالکان ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت پر کسی قسم کا منفی اثر برداشت کریں گے؟ ایسا ممکن نہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ لوٹ مار میں ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، کیا ٹرمپ اس تجارت کی حوصلہ شکنی کرسکتے ہیں؟ ہتھیاروں کی کھپت کے لیے جنگوں کا ہونا یا جنگی خطرات کا ہونا ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین اور پاک بھارت کشیدگی، چین بھارت سرحدی مسئلے، چین جاپان اختلافات، جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی، ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

کیا ٹرمپ ان ملکوں کے متنازعہ مسائل حل کرنے میں ایماندارانہ کردار ادا کرسکتے ہیں؟ رہا داعش کا مسئلہ، سو داعش کو فوجی شکست سے زیادہ نظریاتی شکست دینا ضروری ہے اور نظریاتی شکست کے لیے دنیا کے عوام میں ذہنی انقلاب لانا لازمی ہے۔ کیا امریکا اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گا؟

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website