counter easy hit

ٹرمپ کے عہدہ صدارت کا آغاز

غالباً ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے وہ واحد صدر ہیں جن کے عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے اور عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد امریکا بھر میں شدید پرتشدد مظاہروں کا ایک خوفناک سلسلہ جاری ہے یہ مظاہرے کس قدر بھرپور اور وسیع ہیں اس کا اندازہ ملک کے دارالحکومت واشنگٹن میں ہونے والے 2 لاکھ خواتین کے مارچ اورمانچسٹر، سڈنی، منیلا، ٹوکیو، جرمنی، جنوبی افریقہ سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں سے ہوسکتا ہے۔ دارالحکومت واشنگٹن میں مظاہرین نے درجنوں گاڑیوں کو نذرآتش کردیا۔

یہ مظاہرے صدر ٹرمپ کے 21 جنوری کو عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے ہو رہے ہیں اور تادم تحریر جاری ہیں عموماً پرتشدد مظاہرے پسماندہ ملکوں میں ہوتے ہیں کیونکہ ان ملکوں میں سیاسی اخلاقیات اپنی ابتدائی منزل میں ہے لیکن مہذب دنیا میں عموماً احتجاج اور مظاہرے بڑے منظم اور پرامن ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب دنیا میں پرتشدد مظاہرے کیوں ہورہے ہیں؟ کیوں مظاہرین جلاؤگھیراؤ پر اتر آئے ہیں اور صرف واشنگٹن میں کیوں دو لاکھ خواتین مارچ کرتی نظر آرہی ہیں؟

اس حوالے سے عوام کے غصے کا پہلا سبب یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں ٹرمپ کی حریف ہیلری کلنٹن نے لاکھوں کی تعداد میں زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے لیکن امریکا میں رائج جمہوریت اور انتخابی قوانین کے مطابق اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے امیدوارکے بجائے زیادہ الیکٹوریل ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار الیکشن میں کامیابی کا اہل قرار پاتا ہے۔ہوسکتا ہے امریکا کے مخصوص حالات میں اس نظام کی کوئی اہمیت اور افادیت ہو لیکن یہ نظام سراسر جمہوریت کی روح کے منافی ہے جس میں اکثریت کو ہی برتر اور فیصلہ کن طاقت سمجھا جاتا ہے۔اس تضاد نے الیکشن کے نتائج آنے کے بعد ہی عوام میں اشتعال پیدا کردیا تھا اور عوام اس سسٹم کے خلاف سڑکوں پر آگئے تھے یہی غصہ اور اشتعال اب عالمی سطح پر باہر آتا نظر آرہا ہے۔

جب ٹرمپ عہدہ صدارت کا حلف اٹھا رہے تھے امریکا شدید اور پرتشدد مظاہروں کی زد میں تھا ہر طرف جلاؤ گھیراؤ توڑ پھوڑ کا دور دورہ تھا واشنگٹن میدان جنگ بنا رہا۔ ٹرمپ نے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں جن پالیسیوں کی نشاندہی کی ہے ان میں ٹرمپ نے پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) مشرف کی طرح ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ٹرمپ نے عالمی مسائل کے حوالے سے دہشتگردی کے خاتمے کا اعلان کیا موصوف نے کہا کہ دنیا سے ’’اسلامی دہشتگردی ختم کردیں گے‘‘۔ صدر ٹرمپ کا یہ فرمان ہوسکتا ہے عمومی طور پر کچھ معنی رکھتا ہو لیکن امریکا جیسے ترقی یافتہ اور مہذب ملک کے صدرکی تقاریر عمومی نہیں ہونا چاہیے۔

امریکا ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے عوام اس حقیقت سے واقف ہیں کہ دنیا میں بسنے والے ایک ارب سے زیادہ عوام میں دہشتگردوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور مسلمانوں کی بھاری اکثریت مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف ہے۔ اس کھلی حقیقت کے پیش نظر دہشتگردی کو ’’اسلامی دہشتگردی‘‘ کہنے سے عام امن پسند مسلمانوں میں کیا ردعمل ہوگا۔ اس کا ٹرمپ کو ادراک ہونا چاہیے جب کہ ٹرمپ پہلے سے مسلم دشمنی میں بدنام ہیں۔

اپنے پالیسی بیان میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’ہم دوسروں کے دفاع میں اربوں ڈالر خرچ نہیں کرسکتے۔‘‘ بہ ظاہر ٹرمپ کا یہ اعلان اس لیے خوش آیند ہے کہ امریکا کی ساری تاریخ دوسرے ملکوں میں اپنی افواج رکھنے سے بھری ہوئی ہے اور امریکی حکمرانوں کی اس پالیسی کا مقصد دوسرے ملکوں کا دفاع نہیں بلکہ اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کا دفاع ہے۔ آج بھی مشرق وسطیٰ جنوبی کوریا سمیت کئی ملکوں میں امریکی فوجیں بڑی تعداد میں موجود ہیں جن پر اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ کا فرض ہے کہ وہ ان تمام ملکوں سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کریں جہاں برسوں بلکہ عشروں سے امریکی فوجیں بھاری تعداد میں متعین ہیں۔

ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم کسی پر اپنا نظریہ مسلط نہیں کرنا چاہتے ٹرمپ کی یہ بات بڑی معقول ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نظریے سے ٹرمپ کی مراد کیا ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام ایک نظریہ ہے اور اس نظریے کا سب سے بڑا محافظ امریکا ہے۔ یہی وہ ظالمانہ نظریہ ہے جس نے انسانوں کو 98/2 میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے ایک طرف اس نظریے سے تحفظ حاصل کرنے اور لوٹ مارکی آزادی حاصل کرنے والی 2 فیصد کرپٹ اقلیت ہے جو دنیا ہی میں جنت کے مزے لوٹ رہی ہے اور دوسری طرف وہ 98 فیصد اکثریت ہے جو دو وقت کی روٹی سے محتاج ہے۔ یہ نظریہ جو ایک نظام کی شکل میں ساری دنیا پر مسلط ہے۔کیا ٹرمپ دنیا کو اس ظالمانہ نظریے سے نجات دلانے کے لیے تیار ہیں؟ اس نظریے یا نظام میں سرمایہ دار دنیا باالواسطہ طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے ساری دنیا خصوصاً پسماندہ دنیا پر حکومت کررہی ہے کیا ٹرمپ اس کھلی حقیقت سے ناواقف ہیں کہ ہر سال لاکھوں غریب عوام بھوک بیماری سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ٹرمپ نے یہ دلچسپ بات بھی کی ہے کہ ’’آج اقتدارعوام کو منتقل ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب تک امریکا میں اقتدار عوام کے پاس نہیں تھا؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اقتدار ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کے دلالوں کے ہاتھوں ہی میں رہتا ہے وہی ملک کی داخلہ خارجہ اور مالیاتی پالیسیاں بناتے ہیں اور ان کی اولین ترجیح دو فیصد لٹیری (لوٹ مار کرنے والی)کلاس کے مفادات کا تحفظ ہوتی ہے۔ اگر بقول ٹرمپ ’’آج اقتدار عوام کو منتقل ہوگیا ہے تو کیا امریکا کی مالیاتی پالیسیوں میں دو فیصد اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ختم ہوجائے گا۔ مسٹر ٹرمپ کا شمار امریکا کے ارب پتی صدر میں ہوتا ہے اور یہ دولت آپ اس لیے حاصل کرسکے ہیں کہ آپ سرمایہ دارانہ نظام کا کل پرزہ ہیں، اگر آپ عوام کا اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس کرپٹ استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کسی پشت پناہی چھوڑ دیجیے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website