counter easy hit

کلثوم نواز کے منہ بولے بھائی سینیٹر تنویر خان کی مشکلات میں اضافہ

راولپنڈی: راولپنڈی کا حلقہ پی پی 13 پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے اُن چند حلقوں میں شامل ہے جہاں 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کے اُمیدوار کو تحریکِ انصاف کے اُمیدوار کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی حالیہ حلقہ بندیوں کے نتیجے میں اس حلقے کے علاقوں میں معمولی ردوبدل کرتے ہوئے اس کا نمبر پی پی 11 کر دیا گیا ہے۔راولپنڈی کے نیم شہری اور دیہی علاقوں پر مشتمل اس حلقے سے 2013ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے نسبتاً غیر معروف اُمیدوار محمد عارف عباسی نے لگ بھگ ساڑھے 33 ہزار ووٹ لیتے ہوئے مسلم لیگ نون کے اُمیدوار اور سابقہ ایم پی اے ملک غلام رضا کو سخت مقابلے کے بعد کم و بیش تین ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔اس حلقے کے ماضی کے نتائج اور سیاسی صورتِ حال پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کئی دہائیوں سے دو بڑے سیاسی گھرانوں کا اثرو رسوخ ہے جن کی حمایت کے بغیر کسی بھی اُمیدوار کے لیے جیتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ایک دھڑے کی سربراہی مسلم لیگ نون کے سینٹر چوہدی تنویر خان کرتے ہیں جبکہ دوسرا دھڑا چوہدری خان محمد کے زیرِ سایہ سیاست میں خاصا فعال ہے۔

Troubles increased of Kalsoom nawaz mouth talk brother Senator Tanvir Khanمسلم لیگ (ن) کے رہنما اور بیگم کلثوم نواز کے منہ بولے بھائی سنیٹر چوہدری تنویر خان تھانے اور کچہری کی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے ہر الیکشن میں خاصی حمایت حاصل کر لیتے ہیں۔اس علاقے میں مقامی طور پر گجر برادری کی اکثریت ہے تاہم اب اسلام آباد اور راولپنڈی میں ملازمت پیشہ اور کاروباری افراد کی ایک بہت بڑی تعداد بھی یہاں آباد ہو گئی۔ یہاں کے ووٹرز ماضی میں زیادہ تر دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے حامی رہے ہیں تاہم 2002ء کے انتخابات میں یہاں پیپلز پارٹی بھی جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ان انتخابات میں یہاں سے پیپلز پارٹی کے امیدوار اشتیاق مرزا معجزاتی طور پر کامیاب ہوئے تھے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کا مخالف ووٹ بینک متحدہ مجلسِ عمل، ق لیگ، نون لیگ اور آزاد اُمیدوار میں تقسیم ہو گیا تھا۔پیپلز پارٹی کے کامیاب اُمیدوار نے 11 ہزار 795 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ 26 ہزار سے زائد ووٹ مخالف اُمیدواروں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ان انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے اُمیدوار نصیر احمد خان کے حصے میں محض ایک ہزار 72 ووٹ آئے تھے۔2008ء کے انتخابات میں نون لیگ نے سنیٹر چوہدری تنویر خان کے سوتیلے بھائی کے ب یٹے یاسر رضا ملک کو اپنا ٹکٹ دیا جنہوں نے پی پی پی کے اشتیاق احمد مرزا کو شکست دیتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔لیکن بعدازاں سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں بی اے کی ڈگری جعلی ہونے کے باعث نااہل قرار دے دیا گیا اور یہاں ضمنی انتخابات کرائے گئے۔ان انتخابات میں ملک یاسر رضا کے والد ملک غلام رضا خود میدان میں اُترے اور باآسانی نشست جیت گئے۔ ان کے مد مقابل مسلم لیگ (ق) کے امیدوار چوہدری محمد عدنان کے علاوہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا۔البتہ سابق رکنِ صوبائی اسمبلی اشتیاق مرزا نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور چند ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لیے چوہدری خان محمد کے بیٹے چوہدری عدنان اور عارف عباسی میں مقابلہ تھا تاہم جب ٹکٹ عارف کو دے دیا گیا تو عدنان نے اُن کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے انہیں کامیاب کروایا تھا۔آئندہ الیکشن کے لیے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد عارف عباسی کی بجائے چوہدری عدنان کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ دلوانا چاہتے ہیں۔ عدنان کا تعلق چونکہ شیخ رشید گروپ سے ہے لہذا شیخ رشید کو یہ لالچ ہے کہ وہ الیکشن مہم کے دوران اُن کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔مذکورہ دونوں اُمیدواروں کے علاوہ بھی حلقے میں درجنوں سیاستدان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ کے لیے کوشاں ہیں تاہم قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی اپنا ٹکٹ چوہدری عدنان کو دے گی کیونکہ وہی مسلم لیگی امیدوار کا بہتر مقابلہ کر سکتے ہیں۔دوسری جانب نون لیگ اس حلقے میں عرصہ دراز سے گروپ بندی کا شکار ہے۔ آئندہ الیکشن کے لیے ایک طرف سینٹر چوہدری تنویر خان گروپ کے سجاد خان ہلکے پھلکے انداز میں اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں تو دوسری جانب حنیف عباسی گروپ کے چوہدری راسب خان حلقے میں کافی متحرک ہیں راسب خان ذاتی طور پر بھی حلقے میں مقبول تصور کئے جاتے ہیں لیکن یہ بات اٹل ہے کہ ن لیگ کا ٹکٹ سنیٹر چوہدری تنویر خان کی مرضی کے بغیر نہیں دیا جا ئے گا۔دیکھتے ہیں کہ کلثوم نواز کے منہ بولے بھائی اپنے اُمیدوار کو ٹکٹ دلوانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔