counter easy hit

چائے کی ٹر ے

صبا ناز عنایت  

TRAY, OF, TEA, AND, COFFE, BY, SABA ANAYAT NAZ

عرصہ دراز سے ہمارے معاشرے میں ایک قدیم رسم چلی آرہی ہے جسے ہم نے اپنی گرہ سے باندھ لیا ہے۔ پھر چاہے دنیا اِدھر کی اُدھر ہوجائے، لیکن ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں گے۔ مردوں کے اس معاشرے میں جہاں خواتین اَن گنت مسائل برداشت کر رہی ہیں وہیں فرسودہ رسم و روایات بھی سہہ رہی ہیں۔ آج ہم خود کو 21 ویں صدی کا پڑھا لکھا باشعور انسان سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری سوچ کا دائرہ محدود ہے، برسوں سے ہمارے معاشرے میں رشتے کے حوالے سے لڑکے والے پہل کرتے آرہے ہیں۔ یعنی اگر رشتے کی بات کرنی ہو تو لڑکے والے ہی لڑکی کے گھر رشتہ لے کر جائیں گے، جہاں لڑکیوں کو ان کے سامنے چائے کی ٹرے سجائے پیش ہونا ہوتا ہے۔

کیا ہم اپنی اس سوچ کو روایتی زنجیروں سے آزاد نہیں کر اسکتے؟ حضرت خدیجہ ؓ  کی مثال ہم سب کے سامنے ہے کہ انھوں نے خود اپنے لیے رشتے کا پیغام حضرت محمدﷺ کے پاس بھجوایا تھا، جسے اس وقت بھی معیوب بات نہیں سمجھا گیا تھا۔ تو پھر کیوں آج ہم نے خود پر ان رسم و روایات کو طاری کیا ہوا ہے؟

ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ برسوں قبل جو لکیر کھینچ دی جاتی ہے ہم اسی کو پیٹتے رہتے ہیں، پھر چاہے وہ لکیر کی سمت ہمیں اجالے سے اندھیرے میں کیوں نہ لے جاتی ہو۔ آج ہماری خواتین کی اکثریت قمیض سے شارٹ شرٹس، شلوار سے جینز، لمبے گھنے بالوں سے چھوٹی چھوٹی زلفوں میں خود کو ڈھال چکی ہیں۔ یہاں تک کہ سالن روٹی کھانے والی پیزا، برگر کو ترجیح دیتی ہیں۔ غرض ہم پہناوے سے لے کر کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے کے سارے رنگ ڈھنگ مروجہ طرز کے تابع کرچکے ہیں؛ لیکن اپنی فرسودہ سوچ کا دروازہ کہیں نہ کہیں ہمیشہ کھولے رکھتے ہیں اور پھر زندگی کے تمام اہم معاملات میں اسی سوچ کو غالب گردانتے ہیں۔

 ایسا کیوں ہے کہ ہم ماڈرن سوچ رکھتے ہوئے بھی اپنی بیٹی کا رشتہ مانگنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں؟ یہ بات تو طے ہے کہ کسی کتاب میں یہ الفاظ درج نہیں کہ رشتے کےلیے لڑکے والے ہی پہل کریں گے، مگر افسوس کہ ہم میں سے کوئی بھی اس سے باخبر نہیں کہ یہ رسم کب اور کیسے ہم پر حاوی ہوئی، اور ایسے ہوئی کہ نسل در نسل اس کی پیروی کر تے چلے جا رہے ہیں۔ جب بھی رشتے کے حوالے سے بات کی جائے تو ذہن میں پہلا تصور یہی آتا ہے کہ فلاں لڑکے والے لڑکی کے گھر جائیں گے، جہاں وہ نہ صرف لڑکی کا مکمل جائزہ لیتے ہیں اس کا رنگ و روپ دیکھتے ہیں، بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ نظروں سے ہی لڑکی کا پوسٹ مارٹم کرلیا جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ در و دیوار دیکھ کر ان کی مالی حیثیت کا بھی اندازہ لگایا جاتا ہے۔

جب لڑکے والے رشتے کے حوالے سے لڑکی کے گھر جاتے ہیں تو اس وقت ایک لڑکی کے جذبات کیا ہوتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کیونکہ ایک لڑکی جسے بار بار مختلف لوگوں کے سامنے چائے کی ٹرے لیے پیش ہونا پڑے، اس آس کے ساتھ کہ آج اسے پسند کر لیا جائے گا۔ وہ بڑی چاہ سے خود کو سنوارتی ہے لیکن ایک سیکنڈ میں یہ کہہ کر کہ ہمیں لڑکی پسند نہیں آئی، اس کی ساری امیدیں رد کردی جاتی ہیں۔ شاید اس وقت اسے یوں محسوس ہوتا ہو جیسے اسے کسی نے آسمان کی اونچائی سے کھینچ کر زمین کی گہرائیوں میں پھینک دیا ہو۔

لڑکے والوں کے تاثرات یوں ہوتے ہیں گویا کسی سبزی منڈی میں آئے ہوں، ایک سبزی پسند نہ آئی تو دوسری سبزی دکھانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ لڑکی جو پہلے ہی خود کو حقیر سمجھتی ہے، مزید گھائل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ۹۰ فیصد لڑکیاں اسی کیفیت کی وجہ سے چڑچڑاہٹ کا شکار ہو رہی ہیں، اور ان میں دوسری لڑکیوں سے حسد کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے جو ایک فطری عمل ہے۔

ہمارے آس پاس ایسے کتنے والدین ہیں جو اپنی بیٹیوں کےلیے دل ہی دل میں فلاں لڑکے سے شادی کا خیال لیے ہوتے ہیں، لیکن اس ڈر سے کہ لڑکے والے کیا سوچیں گے؟ لوگ کیا کہیں گے؟ ہم اتنے گرے پڑے ہیں کیا؟ ہم لڑکی کے ماں باپ ہیں، اچھا نہیں لگتا۔ وہ اپنے دل کی بات دل میں دفن رکھتے ہیں اور پھر اسی لڑکے کی شادی کا کھانا کر سوچتے ہیں کہ کاش ہم ایک بار بات کرلیتے تو شاید یہ آج ہمارا داماد ہوتا۔

اگر ہم اپنی پرانی روایات کو پسِ پشت ڈال دیں تو اس عمل میں کوئی مضائقہ نہیں کہ لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کے لیے کوئی لڑکا پسند آنے کی صورت میں رشتہ مانگنے میں پہل کریں۔ بات صرف سوچ و رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی ہے، وگرنہ ہمارے معاشرے میں لڑکیاں یوں ہی فرسودہ روایات کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی اور لڑکے والے کسی شو کیس میں سجے ڈیکرویشن پیس کی طرح لڑکیوں کی نمائش کے شغل میں لگے رہیں گے۔

بعض لوگوں کی نظر میں لڑکی کی عزت برقرار رکھنے کی خاطر یہ روایت برسوں سے چلی آرہی ہے، ورنہ زندگی بھر اسے یہ طعنے ملتے رہیں گے کہ ” تمھارے گھر والے رشتے کےلیے آئے تھے، ورنہ کون کرتا تم سے شادی؟‘‘ وغیرہ وغیرہ… یا یہ سوچنا کہ اس کا تاثر اچھا نہیں رہے گا، موجودہ دور کی عکاسی نہیں کرتا۔

بدلتے زمانے کا تقاضا ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو بھی موجودہ دور میں ڈھالنا ہوگا، تاکہ ذہنوں پر جمی صدیوں پرانی دھول جھاڑ سکیں۔

اور کیا حرج ہے، اگر ایک بار تصور کرکے تو دیکھیں کہ لڑکے چائے کی ٹرے ہاتھ میں لیے پیش ہوں تو کیسا لگے گا؟

نوٹ: یس اردو نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

صبا ناز عنایتTRAY, OF, TEA, AND, COFFE, BY, SABA ANAYAT NAZ

صبا ناز ایم اے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد مقامی اخبار میں سب ایڈیٹر کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز