counter easy hit

پھر کویت چلو ۔۔۔۔توفیق بٹ

لاہور (ویب ڈیسک) قارئین میں کل بدھ کو تین ہفتوں کے لیے کویت جارہا ہوں، یہ مجھے کویت کا شاید پانچواں یا چھٹا دورہ پڑ رہا ہے، یہ ملک مجھے ویسے ہی اچھا لگتا ہے جیسے بے شمار دوسرے ممالک صرف اِس لیے اچھے لگتے ہیں کہ وہاں مقیم پاکستانی بڑی عزت دیتے ہیں، عزت واحد چیز ہے نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے مِلنے پر کوئی انسان سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے وہ انسان روپے پیسے کا لالچی نہ ہو، مال وزر کی ہوس میں مبتلا لوگوں کے نزدیک دولت کے مقابلے میں عزت کوئی اہمیت نہیں رکھتی، وہ یہ سمجھتے ہیں جِس کے پاس دولت ہے اُسی کی عزت ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ایک لحاظ سے یہ بات شاید درست ہو، مگر حقیقت میں عزت ہی سب سے بڑی دولت ہے اور یہ دولت جس کے پاس ہوتی ہے وہ اور کسی دولت کے سہارے کا محتاج نہیں ہوتا، دولت اگر عزت برقرار رکھ سکتی ہوتی یا اُس میں اضافے کا باعث بن سکتی ہوتی شریف برادران اور زرداری اِس ملک کے سب سے عزت دار لوگ ہوتے۔ مگر وہ بے عزتی کے پرلے درجے کے مقام پر لڑکھڑاتی ٹانگوں کے ساتھ کھڑے اُن لوگوں کے لیے نشانِ عبرت ہےں جو دولت کے دیوتاکی پوُجا کرتے کرتے اِس یقین کے ساتھ قبر میں اُتر جاتے ہیں کہ قبر میں بھی دولت سے اپنی بخشش کے سارے سامان بڑی آسانی سے وہ حاصل کرلیں گے۔ اُن کے مقابلے میں جو صِرف عزت کماتے ہیں وہ خود مرتے ہیں نہ اُن کی قبریں مرتی ہیں، پچھلے دنوں کراچی سے ایک دوست تشریف لائے، وہ بتارہے تھے عبدالستار ایدھی کی قبر پر روزانہ سینکڑوں لوگ حاضری دیتے ہیں، اُسی قبرستان میں کراچی کی ایک مشہور اور امیرترین شخصیت دفن ہے۔ اُس کی قبر کی ویرانیاں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے اُس کا دنیا میں کوئی نہیں جبکہ حقیقت میں وہ اچھی خاصی جائیداد اور اولاد پیچھے چھوڑ کر گیا ہے ،…. مجھ سے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں ” آپ اکثر دوسرے ممالک میں جاتے ہیں ، کون سا ملک آپ کو سب سے زیادہ اچھا لگا ؟ ،میں عرض کرتا ہوں ”مجھے اِس صورت میں ساری کائنات ہی بڑی اچھی لگتی ہے کہ اللہ کریم ساری کائنات کا ہے ، پاکستان بھی اُس میں شامل ہے، جو مجھے سب سے زیادہ پسند نہ ہوتا تو امریکہ، برطانیہ، یورپ خصوصاً کینیڈا جہاں میرا سارا سسرال بڑی آسودہ زندگی بسر کررہا ہے کی شہریت حاصل کرنے کے بے شمار مواقع میں کبھی ضائع نہ کرتا۔ پاکستان نے مجھے جو عزت دی میں یہ نہیں کہتا کہ میں اُس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، کیونکہ میں نے ایک بار اپنے ابوجان کی موجودگی میں یہ کہا تھا اُنہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور فرمایا ”تم کیوں تصور نہیں کرسکتے تھے ؟ کیا تمہیں اپنے اللہ کی رحمت کا اندازہ نہیں ہے ؟“….اُس کے بعد میں نے کبھی یہ نہیں کہا ” میں اِس عزت مندانہ مقام کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا “….البتہ ایک احساس محرومی ہمیشہ مجھ پر غالب رہتا ہے کہ جتنی نعمتیں، سہولتیں، خصوصاً عزت آبرو دنیا کے اکثر ممالک میں اور پاکستان میں بھی میری اوقات سے بڑھ کر مجھے مِلتی ہے میں اُس کے مطابق اللہ کی شُکرگزاری کا ”دال دلیہ“ بھی نہیں کرپاتا، بس اِس لالچ میں مبتلا رہتا ہوں میری چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو اللہ قبول فرمالے اور اُس کا اجر بڑی بڑی نیکیوں کی صورت میں عطا فرما دے کہ انسان جتنی بھی کوشش کرے، ساری زندگی سجدے میں گِرا رہے اللہ کی نعمتوں کا حق پھر بھی ادا نہیں ہوسکتا ،….میں عرض کررہا تھا لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں آپ اتنے زیادہ ممالک میں گئے ہیں، آپ کو سب سے زیادہ کون سا ملک اچھا لگا ؟ ….میں کہتا ہوں ” سارے ممالک ہی خوبصورت ہیں۔ مگر مجھے وہ مُلک زیادہ اچھا لگتا ہے جہاں لوگ اچھے ہوتے ہیں، پاکستان دنیا کا شاید سب سے اچھا مُلک ہے مگر بے شمار لوگوں کو یہ مُلک صِرف اِس لیے اچھا نہیں لگتا کہ ہم میں سے اکثر اچھے نہیں ہیں، لوگ اب عمران خان کی حکمرانی پر بھی تنقید کرتے ہیں میں اُن سے کہتا ہوں اِس ”قرآنی قول“ کے مطابق وہ بھی اچھاکیسے ثابت ہوسکتا تھا کہ ”جیسی قوم ہوگی ویسے حکمران اُس پر مسلط کردیئے جائیں گے ؟“۔کیا ”قوم“ عُرف ”ہجوم“ نے اپنا رویہ تبدیل کرلیا ہے کہ اچھے حکمران اُس کے مقدر میں لکھ دیئے جاتے؟۔….گوری دنیا تقریباً ساری ایک جیسی ہے۔ ایک جیسے سمندر، ایک جیسے پہاڑ، ایک جیسا سبزہ ایک جیسے دریا ،جھیلیںاور انسانی حُسن، مگر مجھے ناروے اور سپین اِس لیے زیادہ پسند ہے وہاں لوگ بہت اچھے ہیں، خصوصاً اِن ممالک میں مقیم پاکستانی اتنی عزت اور محبت دیتے ہیں میں جب یہاں جاتا ہوں میرا واپس آنے کو جی نہیں چاہتا، میں اِن ممالک کو پاکستان سمجھنے لگتا ہوں مگر پھر یہاں کے حکمران اپنے اچھے اچھے کارناموں سے میرے اِس احساس کو غلط ثابت کردیتے ہیں، کویت بھی مجھے اِس لیے پسند ہے کچھ کویتی دِل کے باقاعدہ ”گورے“ ہیں۔ وہ پاکستانیوں سے بڑی محبت کرتے ہیں، کویت میں مقیم ہزاروں پاکستانیوں کا بھی کوئی جواب نہیں۔ وہ مختلف شعبوں میں بڑی محنت اور مہارت سے فرائض ادا کرتے ہیں، پاکستان سے کِسی بھی شعبے میں کمالات دِکھانے والی کوئی شخصیت کویت جاتی ہے وہ اُس پر اس قدر نچھاورہوتے ہیں اُس شخصیت کا پھر واپس آنے کو جی نہیں چاہتا، میرا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے، سو میں تقریباً ہرسال اپنے محترم بھائی ندیم اشرف اور اُن کی پوری ٹیم کی جانب سے کویت کی دعوت اور ویزہ مِلنے پر کویت جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہربار یہ سوچتا ہوں حسبِ معمول میرا وہاں سے واپس آنے کو جی نہ چاہا تو پاکستان میں میرے دوستوں اور عزیز واقارب کا یہ ”بھرم“ قائم رہے کہ وہ میرے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے، …. البتہ کویت جاتے ہوئے ایک شرمندگی ہمیشہ مجھ پر غالب رہتی ہے کہ برادرم ندیم اشرف کی خصوصی محبت سے مجھے تو ہرسال کویت کا ویزہ بڑی آسانی سے مِل جاتا ہے مگر دیگر پاکستانیوں کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے ویزے کی بندش ہے جِس کی وجہ سے کویت میں مقیم ہزاروں پاکستانی سخت مشکلات کا شکار ہیں، پچھلے وزیراعظم نواز شریف کویت کے دورے پر گئے تو اُس موقع پر دیگر جھوٹے اعلانات کی طرح ایک اعلان یہ بھی کردیا کہ اُن کی کویتی حکمرانوں کے ساتھ ویزے کی بندش پر بات ہوئی ہے جِس پر ویزے کی بندش ختم کردی گئی ہے، اِس اعلان پر کویت میں مقیم پاکستانیوں خصوصاً نون لیگیوں نے بڑے ڈھول بجائے تھے، خود میں بھی بڑا خوش ہوا تھا کہ اب میری طرح دیگر شخصیات بھی پاکستان سے کویت جائیں گی اور وہاں مقیم زبردست پاکستانیوں سے مِلنے کے اُنہیں مواقع مِلیں گے،…. کویت میں پاکستان کے سفیر جناب غلام دستگیر بڑے زبردست انسان ہیں، اُن کی سرپرستی میں سفارتخانے کی ساری ٹیم خصوصاً ”ڈائریکٹر پاسپورٹ جناب عطاءالرحمان کویت میں مقیم پاکستانیوں کو آسانیاں فراہم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، مجھے لگتا ہے ویزے کی بندش ختم کروانے کے لیے اُن کی کاوشوں اور کوششوں کو کویت اور پاکستان کی وزارت داخلہ و خارجہ کے کچھ اہم افسران مشترکہ طورپر کامیاب نہیں ہونے دے رہے۔ اُنہیں مگر اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئیں ، میں بھی اِس ضِمن میں کویت سے واپسی پر وزیراعظم عمران خان سے بات کروں گا۔