counter easy hit

لاہور کی جیت

سیاست کا بے رحم کھیل جاری ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس کھیل کے کھلاڑی نئی نئی بولیاں بول رہے ہیں، لاہور میں ہونے والے ضمنی الیکشن کو ہمارے میڈیا نے بہت زیادہ اہمیت کا حامل بنا دیا اور اس کی بنیادی وجہ ہماری نو آموز سیاسی پارٹی تحریک انصاف نے ایک بار پھر اپنی بچگانہ سیاست اور بیان بازی سے اس انتخاب کو ملک کی بقاء اور خاص طور پر عدلیہ کے حق میں ریفرنڈم قرار دیا تھا۔

اس ضمنی انتخاب کو عوام نے شاید زیادہ اہمیت نہیںدی کیو نکہ ووٹر کا تناسب پچھلے الیکشن کے مقابلے میں خاصہ کم رہا بلکہ نواز لیگ کی جیت کے ووٹوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی لیکن تحریک انصاف نے اپنی جیت کی توقع اور امید کے ساتھ اسے عدلیہ حمایت کا الیکشن قرار دے دیا کہ اس الیکشن کے نتائج اگر تحریک انصاف کے حق میں آجاتے تو یہ عدلیہ کی جیت قرار پاتی لیکن جب نتائج اس کے برعکس آئے تو نواز لیگ نے اپنی عدلیہ مخالف روش کو آگے بڑھاتے ہوئے ا پنی جیت کو نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف دیے جانے والا فیصلہ عوام کی عدالت سے رد ہونے کا ایک بار پھر اعلان کیا۔ ضمنی الیکشن میں جیت عموماً بر سر اقتدار پارٹی کے حصے میں ہی آتی ہے اور یہ کم ہی دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن کی کوئی پارٹی ضمنی الیکشن کا میدان فتح کر لے ۔

کچھ ضمنی الیکشن ایسے ہوتے ہیں جو کہ کسی پارٹی کا گڑھ سمجھے جانے والے حلقے میں ہو رہا ہو تو اس کے نتائج کا سب کو پہلے سے ہی علم ہوتا ہے اور اس کے بارے واضح پیش گوئی کی جا سکتی ہے ۔ لاہور کا ضمنی الیکشن بھی ایک ایسا ہی الیکشن تھا جو کہ نواز شریف کے آبائی حلقے میں ہو رہا تھا اور میاں صاحب کی اہلیہ امیدوار تھیں جن کو اس ملک کے عوام نواز شریف کی قید کے دوران ہمت اور دلیری کے ساتھ عوامی رابطہ مہم میں دیکھ چکے تھے، اس ضمنی الیکشن کے نتائج نواز لیگ کے مخالف آنے کے بارے کسی کو خوش فہمی ہو تو اس کی اپنی مرضی لیکن میں ذاتی طور پر اسے یک طرفہ مقابلہ سمجھتا رہا اور اس پر تبصرے سے گریز کیا اور اس کے نتائج بھی توقعات کے مطابق ہی آئے اگر کوئی یہ سمجھے کہ نواز لیگ کے ووٹوں میں کمی ہو گئی تو اس کی وجوہات بھی ہیں اور یہ بات بڑی آسانی کے ساتھ سب کی سمجھ میں آجانی چاہیے کہ ضمنی الیکشن میں لوگوں کا وہ جوش و خروش نہیں ہوتا جو کہ جنرل الیکشن کا خاصہ ہے بلکہ ضمنی ایکشن میں ووٹرز کو منتیں کر کے پولنگ اسٹیشن تک لانا پڑتا ہے کیونکہ ووٹر یہ سمجھتا ہے کہ ایک سیٹ کی وجہ سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا جب کہ جنرل الیکشن میں صورتحال اس کے برعکس ہوتی اور ووٹر اس وقت اپنے لیے آنے والی حکومت کا انتخاب کر رہا ہوتا ہے۔دوسری طرف ضمنی الیکشن میں برسراقتدار پارٹی اپنے سارے وسائل الیکشن والے حلقے میں لگا دیتی ہے۔

جس سے راتوں رات اس حلقے کی قسمت ہی بدل جاتی ہے اور عوام جو کہ حکمرانوں اور اپنے نمایندوں کی صورت کو ترس رہے ہوتے ہیں یکایک ان پر سیاسی نمایندوں کی یلغار ہو جاتی ہے اور ہر قسم اور ہر سطح کا سیاسی لیڈر ان کے درمیان ہوتا ہے اور ان کے مسائل کو فوراً حل کرنے پر آمادہ بھی ۔ عوام کو اپنی اہمیت کا اصل احساس ضمنی الیکشن میں ہی ہو تا ہے اور وہ اپنے ان مسائل کو حل ہوتا دیکھ رہے ہوتے ہیں جن کے لیے وہ ایک طویل عرصے سے خوار ہو رہے ہوتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا مگر ضمنی الیکشن ان کی قسمت اچانک ایسے کھول دیتا ہے جیسے ان کی لاٹری نکل آئی ہو اور وہ تصویر تو آپ سب کی نظر سے گزری ہوگی کہ لاہور کے اس اہم حلقے کی ایک سڑک راتوں رات بنا دی گئی اور راستے میں ایک پرانی موٹر کار کھڑی تھی اور سڑک بنانے والے ٹھیکیدار کو اس قدر عجلت تھی کہ اس نے اس موٹر کار کو ہٹانے کی زحمت نہیں کی اور اس کے ارد گرد ہی سڑک تعمیر کر دی ۔ اس طرح کے کئی لطیفے ضمنی الیکشنوں میں ہوتے رہتے ہیں جوعوام کے ہنسنے اور حکومت کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔

میں کئی ضمنی الیکشنوں کا گواہ ہوں اور ان کی رپورٹنگ بھی کی ہے ۔ ان ضمنی الیکشنوں کے دوران ووٹر بڑے مزے میں دکھائی دیتے ہیں کہ جو نمایندے عرصہ دراز سے کہیں گم ہو گئے تھے وہ ایک بار پھر ان کے درمیان ہوتے ہیں اور ووٹرز کے نخرے اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔میرے اپنے آبائی حلقے میں بھی اسی حکومت کے دوران ضمنی الیکشن ہوا لیکن چونکہ میرا آبائی علاقہ لاہور سے بہت دور پہاڑوں کے دامن اور ریگستانی علاقے پر مشتمل ہے اس لیے خوشاب جیسے پسماندہ ترین ضلعے میں وہاں کے ووٹروں کو لاہور میں ہونے والے ضمنی الیکشن جیسی عیاشی میسر نہ آسکی اور ان کی موٹر کاریں سڑک کنارے سڑک کی تعمیر کا انتظار کرتی کھڑی رہ گئیں الیکشن آیا اور گزر بھی گیا۔

خوشاب کے اس حلقے کے عوام نے بھانت بھانت کے سیاسی لیڈروں کی ٹولیاں ضرور دیکھیں اور ان کی خوب خاطر مدارت بھی کی، یہ میرے علاقے کی روایت ہے کہ مہمان کو عزت دو چاہے وہ آپ کو پسند ہو یا نہ ہو۔ میرے اپنے گاؤں میں بھی ضمنی الیکشن کے دوران لاہور اور دوسرے اضلاع سے سیاسی نمایندے پہنچ گئے تا کہ حکومتی امیدوار کو کامیاب کرایا جا سکے ۔ میرے بھتیجوں نے جو کہ اپنی علاقے کی سیاست کے مطابق حکومتی امیدوار کی حمایت کر رہے تھے انھوں نے جب مختلف حکومتی نمایندوں کی یلغار دیکھی تو ان کی خاطر مدارت میں لگ گئے اور حکومتی امیدوار کو کامیاب بنانے کے لیے ووٹ مانگنے کا اصل کام پیچھے چلا گیا کہ گاؤں میں ووٹ مانگنے کے اپنے الگ ضابطے ہیں اور شہروں سے آنے والے سیاسی نمایندے دیہات کے ان طور طریقوںسے نابلد ہوتے ہیں اس صورتحال کو دیکھ کر الیکشن کے امیدوار نے ان باہر سے آنے والے نمایندوں سے درخواست کی ان کی حاضری لگ گئی ہے اور وہ اب وادی سون کی سیرو سیاحت کریں تا کہ ہمارے حمایتی مہمان نوازی سے فارغ ہو کر ووٹ مانگ سکیں۔

بات لاہور کے الیکشن سے شروع ہوئی تھی اور مجھے اپنا ضمنی الیکشن یاد کرا گئی جس کے مزے ہم نہ لوٹ سکے اور اپنے منتخب نمایندوں کو دہائیاں دینے کے بعد اب جا کر کہیں خوشاب سے وادی سون جانے والی بڑی شاہراہ کی تعمیر شروع ہو گئی ہے جو کہ نجانے کب مکمل ہو گی اور میرا آبائی علاقے کا سفرآسان ہو سکے گا۔

لاہور کا ضمنی الیکشن توقعات کے مطابق اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا اور اس سے اگر نواز لیگ کی قومی اسمبلی میں ایک سیٹ برقرار رہی تو یہ کوئی کمال نہیں ہو گیا کہ پہلے سے ہی ان کی حکومت کامیابی سے چل رہی ہے سوائے اس کے کہ میاں نواز شریف کو سیاست سے آؤٹ کر دیا گیا ہے لیکن اس الیکشن نے نواز لیگ میں اختلافات کو ضرور جنم دیا ہے جن کے بارے چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ لاہور کی یہ جیت نواز لیگ کے لیے کس قدر سود مند ثابت ہوتی ہے۔