counter easy hit

ضیاء آمریت کا جانشین

سینیٹ کے انتخابات میں بلوچستان سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے صادق سنجرانی کے چئیرمین سینیٹ منتخب ہونے کے بعد سے اصحاب نون اور انکے حواریوں اور جمہوریت کا ہر وقت ورد کرنے والوں محمود خان اچکزئی، میر حاصل بزنجو اور مولانا فضل الرحمن کی صفوں میں عجیب قسم کا ماتم بچھا ہوا ہے۔ یہ احباب طرح طرح کے دلائل گھڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان انتخابات پہ اسٹیبلشمنٹ اثرانداز ہوئی ہے اور ن لیگ اور اسکے اتحاد یوں کی کامیابی کو ناکامی میں بدل دیا گیا ہے۔

میں یہ بات سمجھنے سے بالکل ہی قاصر ہوں کہ ضیاء کی گود سے جنم لینے والے اور اسکے ورثے کو لے کر چلنے والے اور اپنی ساری سیاست کی بساط بھٹو دشمنی پہ رکھنے والے میاں نوازشریف آخر اینٹی اسٹیبلشمنٹ کیسے ہو گئے اور اسکی کونسی انقلابی پالیسیاں ہے جو مئوخرالذکر کی آنکھ میں کٹھکتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے پچھلے دورِ حکومت میں معزز ججز کی بحالی کے لئے آصف زرداری کی مخلوط حکومت کو چھوڑنے سے لے کر لانگ مارچ کرنے اور یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی پر ایسے دسیوں وزاراء اعظم کے سپریم کورٹ کے فیصلوں پہ قربان کرنے کے بھاشن دینے والے میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس میں فیصلہ کیا آیا کہ موصوف تو سرے سے ہی عدالتوں کے وجود اور انکے ہر قسم کے فیصلوں کی تابعداری سے ہی انکاری ہو گئے۔ حالانکہ اسی سپریم کورٹ کا بھٹو کے خلاف قتل کے ایک مقدمے میں تین چار کی انتہائی کم مارجن سے پھانسی کی سزا موصوف کو دل و جان سے عزیز تھی اور اسی بھٹو کو تختہ دار پہ لٹکانے والے جنرل ضیاء کے یہ جانشین تھے اور اسکو اپنا روحانی باپ کہا کرتے تھے۔

جنرل ضیاء کے افغان جہاد پالیسی کے یہ بہت بڑے مداح تھے اور افغان مجاہدین کے ہاتھوں ڈاکٹر نجیب کی افغان حکومت کا دھڑن تختہ ہونے پر کابل کی پل چرخی میں شکرانے کے نوافل ادا کرنے گئے تھے۔ اُس وقت محمود خان اچکزئی انکی اس حرکت پہ سخت برہم تھے اور اپنے جلسوں میں کہا کرتے تھے کہ نواز شریف کو کابل جانے کے لئے لاکھوں پشتونوں کی لاشوں کے اوپر سے گزر کے جانا پڑے گا۔ آج قسمت سے دونوں اتحادی ہیں اور موروثی اور خاندانی سیاست کی نیا کو کنارے پار لگانے کی تگ و دو میں ہیں۔

آج وطنِ عزیز دہشتگردی، فرقہ واریت، لسانیت، عدم برداشت، بدامنی، ہمسائیوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات، جہادی تنظیموں، سیاسی جماعتوں کی شکست وریخت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ سارے مسائل میاں نواز شریف کے پیر ومرشد جنرل ضیاء کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہیں۔ میاں نواز شریف اور اسکے کاسہ لیس جب ایک ہی سانس میں جنرل مشرف کی آمرانہ دور کی تباہ کاریوں پر ماتم کناں ہوتے ہیں اور اگلی ہی سانس میں اپنے ممدوح جرنیل کے گیارہ سال دور کی خرابیوں پہ مجرمانہ خاموشی برتتے ہیں تو انکی دیدہ دلیری کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

آج ہر وقت اپنی من مانی جمہوریت کا راگ الاپنے والے اور جہموریت کے خلاف سازشوں کا رونا رونے والے میاں نواز شریف کے اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے 37 سالوں میں جس طرح یہ موصوف جمہوری آدرشوں کی بیخ کنیوں کا موجب بنتے رہے ہیں، اسکی نظیر ملنا مشکل ہے۔ 1988

ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کے ایماء پر پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لئے آئی جے آئی جیسا غیر فطری اتحاد کھڑا کیا اور بینظیر کے جیتنے کے باوجود اس کو ہٹوانے کے لئے ہر غیر جمہوری سرگرمی کا حصہ بنے۔ حتیٰ کہ 1990ء میں بینطیر کو ہٹانے کے لیے اسامہ بن لادن تک سے پیسے لے کر اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے۔ 1990ء میں صدر غلام اسحاق خان سے طاقتور حلقوں کے اشارے پہ ساز باز کر کے بینظیر حکومت کو برسر اقتدار آنے کے صرف اٹھارہ ماہ بعد آئین کے آرٹیکل 58 بی 2 کے ذریعے تحلیل کروا کے خود ایک دھاندلی سے بھرپور الیکشن کے ذریعے برسر اقتدار آئے لیکن جلد ہی صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے اپنی اسمبلیاں تڑوا بیٹھے۔

1996ء میں اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر بینظیر کو ہٹانے کے لئے صدر فاروق لغاری کو اگلے ٹرم کی صدارت کا لالچ دے کر موخرالذکر کو آرٹیکل 58 بی 2 کے تحت وزارت عظمیٰ سے ہٹوایا اور پھر اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے دو تہائی اکثر یت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد آ ئین میں تیرہویں اور چودہویں ترمیم کے ذریعے امیر المومینین بننے کے خواب دیکھے لیکن اقتدار میں آنے کے کچھ عرصہ بعد آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے ایک متنازعہ بیان پر استعفیٰ لیا۔ اس کے بعد صدر فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو انکے خلاف کیسز کھولنے پہ حواری ججوں کے ذریعے ہٹوا کر گھر کا راستہ دکھایا۔

1999ء میں اپنے ہی لائے ہوئے آرمی چیف جنرل مشرف کو عہدے سے اس وقت ہتایا جب وہ ملک سے باہر تھے۔ اس قدم کے نتیجے میں انہیں اپنے عہدے سے محروم ہونا پڑا۔ پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور نواز شریف نے جلا وطنی اختیار کر لی۔ اب انہوں نے آٹھ سال باہر بیٹھ کر بڑے بڑے جمہوری بھاشن دینے شروع کر دیے۔

انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو شھید کے ساتھ 2006ء میں ایک 35 نکاتی چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط بھی کیے تھے لیکن 2013ء میں الیکشن میں کامیابی کے بعد قوم کو پھر سے وہی اداروں سے گتھم گھتا اور اختیارات کی ہوس کا مارا آمرانہ سوچ کا مالک نواز شریف نظر آیا۔

اس نواز شریف میں وہی اقربا پروری نظر آئی جو اس کا خاصہ تھی۔ ان کے آمرانہ فیصلے ابھی بھی ویسے ہی قائم ہیں۔ اپنی اس ہٹ دھرمی کا نتیجہ انہیں پانامہ کیس میں نا اہلی کی صورت میں بھگتنا پڑا اور اس کے بعد پھر سے وہ ووٹ کے تقدس اور پارلیمان کی بالادستی کے نعرے لگا رہے ہیں جس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔