counter easy hit

شریفوں کے دور میں نوازی جانے والی وہ بیگم صاحبہ جو (ن) لیگ پر زوال آتے ہی کہیں بھی فٹ ہونے کے لیے پی ٹی آئی کی تگڑی سفارش ڈھونڈنے کے مشن پر چل نکلی ، پھر کیا ہوا ؟ جانیے

لاہور (ویب ڈیسک) عثمان بزدار پہ صحیح تنقید ہوتی ہے ۔ وہ شریفوں کی ہوشیاری کا با آسانی کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں؟مقابلہ تو تب ہو کہ لاہور کی مال عثمان بزدار کے اشتہاروں سے بھر جائے اور ایک پوری کھیپ میڈیا والوں کی ہو جن کو ایسے خوش رکھا جائے کہ ہر روز وہ بزدار بزدار ہی پکارتے رہیں

نامور کالم نگار ایاز امیر روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ایسی ہوشیاری نہ پی ٹی آئی نہ عثمان بزدارکے پاس ہے ۔ جو ڈرامے بازی ہم دیکھ چکے ہیں عثمان بزدار وہاں کہاں پہنچ سکتے ہیں ؟ 56 کمپنیوں میں خادموں نے پنجاب کے سب ہونہار بابوؤں کو کھپایا۔ جو چہیتے تھے اُن کی چاندی ہو گئی ۔ جیسے کچرے کے حوالے سے عرض کیا کئی عدد بیگمات بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی رہیں ۔ مجھے ایک ایسی ہونہار بیگم صاحبہ سے ایک کھانے پہ پالا پڑا۔ اِن 56 کمپنیوں میں سے ایک کمپنی میں اُن کے شوہر صاحب تعینات تھے‘ اور تنخواہ تقریباً سولہ لاکھ تھی ۔ بیگم صاحبہ ایک اور کمپنی سے آٹھ نو لاکھ روپے لے رہی تھیں۔ چونکہ وہ نوکری جا چکی تھی‘ اس لئے اُن کا رونا تھا کہ اُن کو پھر سے کہیں فٹ کیا جائے ۔ اُنہوں نے کہا نہیں لیکن باتوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اَب کسی پی ٹی آئی کی سفارش کی تلاش میں ہیں ۔ میں اُن کی مدد نہ کر سکتا تھا لیکن اِس پوزیشن میں ہوتا تو ضرور کرتا۔لیکن احتساب کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے ۔ عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ وہ احتساب نظام کے سربراہ ہوتے تو اَب تک کم از کم پچاس بڑے مرغے سلاخوں کے اُس پار ہوتے ۔

شریفوں اور خادموں کی کارستانیاں بہت تھیں‘ لیکن چونکہ اِس شعبے میں وہ ماسٹر تھے‘ اس لئے سراغ لگانا کوئی آسان کام نہیں ۔ نواز شریف کے خلاف لندن فلیٹوں کے ریفرنس میں ایک استغاثہ کے گواہ نے صاف صاف کہا کہ اُنہیں کوئی شواہد نہیں ملے کہ نواز شریف نے بیٹوں کو باہر پیسہ بھیجا ہو ۔ اِس پہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے فاتحانہ مسکراہٹ ضرور دی ہو گی‘ لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ یہ شریف اور خادم اتنے سادہ اور بھولے ہیں کہ شواہد بکھیرتے پھریں ؟ یہی تو اِن کا کمال تھا کہ جائیدادیں وہاں اکٹھی کیں اور کوئی منی ٹریل آسانی سے نظر نہیں آ رہی ۔ اِن کی مانی جائے تو لندن فلیٹ اپنے آپ ہی کہیں سے نمودار ہوئے اور اُن کیلئے رقم لندن کی کسی اندھیری اور پراسرار رات کو آسمانوں سے گری۔ اسحاق ڈار بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ اُن کے لندن میں کوئی فلیٹ نہیں ۔ اُسی سانس میں یہ بھی کہہ دیتے کہ دبئی میں کوئی ٹاور اورکاروبار نہیں ۔ دُخترِ جمہوریت نے بھی صحیح کہا کہ باہر کیا ، میری تو کوئی جائیداد پاکستان میں بھی نہیں ۔ معصوم اور بھی ہوں گے لیکن اِن کی زبانی اِن سے بڑا معصوم کوئی نہیں ۔ لیکن اِن سب داستانوں میں انعام لاہور کے کچرے کے حوالے سے جاتا ہے ۔ شوگر ملیں تو تھیں۔ پولٹری اور انڈوں کے بادشاہ بھی بن گئے ۔ سمندر پار بھی ایک ایمپائر تھی‘ لیکن لاہور کے کچرے سے اتنا سونا چاندی نکالنا‘ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔