counter easy hit

ضرورت مری کے بائیکاٹ کی نہیں، بلکہ منظم سیاحت کی ہے

یہ میری زندگی کی ایک خوبصورت اور یادگار صبح تھی۔ میرے سامنے ایک جادوئی منظر پھیلا ہوا تھا۔ سامنے مری کا بلند پہاڑی سلسلہ تھا جو گہرے سبز درختوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ درمیان میں کہیں کہیں چاندی جیسی برف شفاف آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ بلند و بالا درختوں پر بلامبالغہ ہزاروں پرندے چہک رہے تھے۔ ابھی صبح کا اجالا پوری طرح پھیلا نہیں تھا۔ پہلے دودھیا روشنی نے منظر کو اجال دیا جس کے کچھ ہی دیر بعد سورج کی کرنوں نے پوری وادی کو سنہرے رنگ میں رنگ دیا۔ ایسا سنہرا رنگ جس کے آگے سونا بھی شرمائے۔

یہ ملکہ کوہسار مری کی سحر انگیز صبح تھی، جو سیاحوں کا پسندیدہ مقام ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف مری ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام ہی پہاڑی علاقے سیاحت کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ بلند و بالا پہاڑ، دودھیا گلیشئر، شفاف پانی سے رواں دواں دریا، جھاگ اڑاتے جھرنے، نیلگوں جھیلیں، آئینہ تمثال چشمے، غرض یہ کہ قدرت کی فیاضی اور دلفریبی قدم قدم پر آپ کا دامن تھام لیتی ہے۔

ہر مقام اپنی مثال آپ ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو مری سیاحوں کا پسندیدہ مقام ٹھہرتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پہنچنا آسان ہے۔ راستے صاف اور سڑکیں بہترین ہیں۔ اسلام آباد سے گھنٹے بھر کی ڈرائیو کے بعد مری پہنچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سال بھر سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر مری کے خلاف ایک مہم چلائی جارہی ہے کہ وہاں کے لوگ سیاحوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں، لہٰذا وہاں جانے کا بائیکاٹ کیا جائے، اور اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے لڑائی جھگڑوں کی کچھ ویڈیوز بھی پوسٹ کی گئیں۔ لیکن اس سب کے پیچھے سچائی کتنی ہے اور پیشہ ورانہ رقابت کا کتنا ہاتھ ہے اس کے لیے ہم نے تھوڑی سی کھوج لگائی اور متعلقین سے بات کی۔

شمالی علاقہ جات میں ماحول دوست سیاحت کے حوالے سے کام کرنے والی ایک تنظیم کے روح رواں آفتاب کا کہنا ہے کہ تھوڑے بہت ناخوشگوار واقعات تو ہوئے ہیں لیکن انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان میں سیاحت کی صنعت میں توسیع دیکھی گئی ہے۔ مقامی سطح پر سیاحت میں اضافہ ہورہا ہے۔ پہلے حکومت کو خوبصورت علاقوں کی تشہیر کرنی پڑتی تھی لیکن اب یہ کام سوشل میڈیا نے سنبھال لیا ہے۔ لوگ اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں جنہیں دیکھ کر دوسروں کو بھی ترغیب ہوتی ہے یوں ان خوبصورت مقامات کے حسن کے اسیر ہوکر جانے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔

آفتاب کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق پورے سال میں کم و بیش ایک کروڑ سیاح سیر و تفریح کی غرض سے مری کا رخ کرتے ہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان، کاغان، ناران، سوات، آزاد کشمیر سمیت ہر علاقے میں بھی لاکھوں سیاحوں کی آمد و رفت دیکھی گئی۔ البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ غیر ملکی سیاحوں نے پاکستان آنا کم کردیا ہے اور اس کی وجہ دہشت گردی اور امن و وامان کی خراب صورت حال ہے۔ نائن الیون کے بعد سے غیر ملکی سیاحت میں تنزلی آئی ہے ورنہ سالانہ 7 سے 8 لاکھ غیر ملکی سیاح پاکستان کا رخ کرتے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے اہم بات اب یہ ہے کہ سیاحوں کی زیادہ تعداد نے طلب اور رسد کے فرق کو واضح کیا ہے۔ جس تعداد سے سیاح آرہے ہیں اس تناسب سے سہولتیں موجود نہیں ہیں، جس کے سبب مسائل اور پریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مری وہ واحد مقام ہے جہاں ایجنٹ سسٹم موجود ہے۔ یہ ایجنٹ سیاحوں کو گھیر کر ہوٹلوں تک لاتے ہیں۔ پھر جب سیاح ہوٹل کے معیار کو اپنی مرضی کا نہیں پاتے تو لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ ہوٹل والے پہلے سے بکنگ نہیں کرتے آپ جب خاندان کے ساتھ ہوٹل پہنچ جاتے ہیں تو پھر من مانے نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔ جو سیاح خاندان کے ساتھ سفر کرتے ہیں وہ زیادہ پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔

صرف مری ہی نہیں اکثر مقامات پر یہی حال ہے۔ ہوٹلوں کی تعداد کم ہونے کے باعث لوگ من مانے نرخ مقرر کرلیتے ہیں۔ کھانوں کے معیار کے حوالے سے بھی بہت شکایات مل رہی ہیں۔ مری کا یہ حالیہ واقعہ شعبہءِ سیاحت کے اربابِ اختیار کو سوچنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ سیاحت کی صنعت اب سنجیدگی کا تقاضا کررہی ہے۔ یہ ایک ابھرتی اور توسیع پذیر صنعت ہے اسے اگر منظم انداز میں مستحکم کیا جائے تو معیشت کے لیے یہ بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اس چھوٹے سے جھٹکے سے ہوٹل والوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملے گا کہ کاروبار میں اخلاص اور ایمان داری کے ساتھ معیار بھی بہت ضروری ہے۔

مدثر حیات بوسل سیاحت کے دلدادہ شہری ہیں اس وقت اپنے خاندان کے ساتھ مری میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے موٹے جھگڑے تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور آج بھی کچھ لڑکوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ہے لیکن مجموعی طور پر مری کا ماحول بہتر لگ رہا ہے۔ سیاحوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مری کے لوگوں کے مطابق لڑائی جھگڑوں کی جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالی جارہی ہیں یہ کئی سال پرانی ہیں۔ اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ مری آنے والے لوگوں کی تعداد بتارہی ہے کہ لوگ اس مہم سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ البتہ یہ فرق ضرور آیا ہے کہ پولیس کا گشت بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہوٹلوں میں بھی پولیس چیکنگ کررہی ہے اور ہر آنے والے کا ریکارڈ رکھا جارہا ہے۔

مری کے ایک ہوٹل منیجر نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالی گئی ہیں، یہ لڑائی جھگڑے 7 سال پرانے ہیں۔ یہ پیشہ ورانہ رقابت کا نتیجہ ہے۔ سیاح چونکہ مری زیادہ آتے ہیں اس لیے انہیں مری سے بددل کرنے کے لیے یہ سب کیا جارہا ہے تاکہ وہ مری آنے کے بجائے دیگر علاقوں کا رخ کریں اور وہاں کے کاروبار میں بھی اضافہ ہو۔ جہاں تک صفائی اور کھانے کے معیار کا تعلق ہے تو بڑے ہوٹل تو اس بات کا خیال رکھتے ہیں، ہاں البتہ چھوٹے ہوٹل اس حوالے سے کمی کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن اصل مسئلے کو بڑھا چڑھا کر بتایا جارہا ہے۔

نتھیا گلی کے ایک ہوٹل کے مالک فہد عباسی کا بھی یہی موقف ہے کہ لڑائی جھگڑے تو ہوئے ہیں لیکن یہ پرانی بات ہے۔ کھانے کے معیار کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے۔ ہاں، البتہ سیزن میں کمروں کے کرائے میں مری کے ہوٹلوں میں لوٹ مار عام ہے۔ لوگوں کا رش بڑھتے ہی کمروں کے کرائے ڈبل کردیے جاتے ہیں اور جس کمرے کا کرایہ 3000 ہوتا ہے اسے 6000 کردیا جاتا ہے۔ حالیہ مہم کے حوالے سے فہد عباسی بتاتے ہیں کہ اس مہم کی وجہ سے سیاحوں کی آمد پر کوئی فرق نہیں پڑا، بلکہ نتھیا گلی جو بھی سیاح آرہے ہیں وہ مری سے ہوکر ہی آرہے ہیں۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ سیاحوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی لیکن اس کے باوجود کچھ ہوٹل والوں نے سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے بینر وغیرہ لگائے ہیں، جبکہ ایک آدھ جگہ سیاحوں سے معافی بھی مانگی گئی ہے۔

آفتاب نے یہ بھی بتایا کہ سیاحتی مقامات پر ہوٹل کی صنعت بغیر کسی قانون کے چل رہی ہے۔ کوئی لائسنس نہیں لیا جاتا، نہ یہ کاروبار کہیں رجسٹرڈ ہوتا ہے۔ 1974ء میں ہوٹل ایکٹ پاس ہوا تھا۔ جس کے تحت ہوٹل کھولنے سے پہلے سرکار سے اجازت لینا ضروری تھا۔ حکومت کا ادارہ ڈپارٹمنٹ آف ٹورزم ایک کمزور ادارہ ہے حالانکہ دنیا بھر میں یہ مضبوط ترین ادارہ ہوتا ہے۔ یہ سختی سے مانیٹرنگ کرتا ہے کہ ہوٹل کے کمروں کی گنجائش کیا ہے، واش روم کتنا بڑا ہوگا، صفائی کا معیار کیا ہے، پانی ہے یا نہیں؟

اگرچہ بائیکاٹ مہم کی وجہ سے سیاحوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی لیکن اس کے باوجود کچھ ہوٹل والوں نے سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے بینر وغیرہ لگائے ہیں، جبکہ ایک آدھ جگہ سیاحوں سے معافی بھی مانگی گئی ہے۔

اسی ادارے کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ہوٹل میں موجود سہولیات کے اعتبار سے اس کی ریٹنگ طے کرے کہ یہ ون اسٹار ہے یا ٹو اسٹار۔ اسی حساب سے کمروں کے کرائے مقرر کیے جاتے ہیں کہ آف سیزن میں کرایہ کیا ہوگا اور سیزن میں کتنا ہوگا۔ حکومت کی جانب سے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اس لیے ہوٹل اپنی من مانی کرتے ہیں۔ ہماری مقامی سیاحت تیزی سے ترقی کررہی ہے لیکن چونکہ اداروں کی جانب سے کوئی مربوط اور منظم نگرانی کا نظام موجود نہیں ہے لہٰذا اس سیاحت سے فائدے کی جگہ نقصان ہورہا ہے، مثلا

سیاح بلا روک ٹوک کہیں بھی کیمپنگ کرلیتے ہیں

آگ جلا لیتے ہیں جس سے قیمتی جڑی بوٹیاں تباہ ہوجاتی ہیں

ہوٹل والے اپنا کچرا اور فضلہ آبی ذخائر میں بہا دیتے ہیں، اور

قیمتی اور کمیاب درخت بلا دریغ کاٹ دیے جاتے ہیں

حکومت کو چاہیے کہ ایک ’ڈیسٹینیشن مینیجمنٹ کمیٹی‘ بنائی جائے جس میں تمام محکمے مثلاً جنگلات، جنگلی حیات وغیرہ اور پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندے بھی شامل ہوں اور مل کر ایک سیاحتی گائیڈ لائنز بنائی جائیں جن پر سختی سے عمل درآمد ہو۔

سیاحت کے فروغ کے لیے خیبر پختونخوا کی حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ سب سے زیادہ خوبصورت علاقے یہیں واقع ہیں۔ ویسے بھی 18ویں ترمیم کے بعد سیاحت اب صوبوں کی ہی ذمے داری ہے۔ پختونخوا میں اگرچہ سیاحتی پالیسی تیار ہوچکی ہے لیکن اس پر عمل درآمد ابھی ایک دور آئند بات ہے۔ اس حوالے سے آفتاب کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاحت صوبوں کا مسئلہ ضرور ہے لیکن غیر ملکی سیاح کسی صوبے میں نہیں بلکہ وہ ’پاکستان‘ آتے ہیں تو بہت سے کام قومی سطح پر کرنے ضروری ہیں۔ صوبوں اور وفاق کو ملا کر ایک ’نیشنل ٹورزم بورڈ‘ کا قیام عمل میں لایا جائے جو سیاحت کے فروغ کے لیے کام کرے۔

حکومت کی جانب سے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اس لیے ہوٹل اپنی من مانی کرتے ہیں۔

اب جبکہ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آگہی کی ایک لہر چل پڑی ہے تو ضرورت ہے کہ ہم اپنی سیاحت کو بھی ماحول دوست کرلیں تاکہ ہمارے قیمتی قدرتی وسائل برباد نہ ہوں۔ ہم دیگر آبی وسائل کی طرح ان سحر انگیز جھیلوں اور دریاؤں سے بھی کہیں گٹر والا سلوک نہ کر بیٹھیں۔ جھیل سیف الملوک اور فیری میڈوز اس کی مثالیں ہیں۔

چند دہائی پہلے یہ مقام اتنے خوبصورت اور سحر انگیز تھے کہ انہیں پریوں کے مقامات سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ مشہور تھا کہ چاندنی راتوں میں جھیل سیف الملوک پر پریاں اترتی ہیں اور فیری میڈوز کو پریوں کا دالان کہا جاتا تھا لیکن آج یہاں بکھرا ہوا کچرا ہمارے ذوق سیاحت پر ماتم کناں ہیں۔ سیاحت کی صنعت سے وابستہ تمام متعلقہ اداروں اور افراد کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے ہماری سیاحتی صنعت پھولے پھلے اور منفی پروپیگنڈے کا سدباب ہوسکے۔