counter easy hit

چراغ سب کے بجھیں گے، یہ ہوا کسی کی نہیں

جو آج آنکھ کے تارے ہیں، برسر اقتدار ہیں، عیش و عشرت میں مگن ہیں، ضروری نہیں کہ وہ کل بھی طاقتور ہوں۔

لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے نوازشریف، مریم نواز اور حکومتی شخصیات کی عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی لگانے اور پیمرا کو جائزہ لے کر قوانین کے تحت فیصلہ کرنے کے حکم کی خبر آئی تو اپوزیشن کے بیانات کا تانتا بندھ گیا۔ سب اس فیصلے کو خوب سراہتے ہوئے عدلیہ کی توقیر کے قصیدے بیان کرتے دیکھائی دیئے۔ یہ سب طرفہ تماشہ دیکھ کر 7 ستمبر2015ء کا وہ دن یاد آ گیا جب اسی لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایم کیو ایم کے بانی و قائد کی تقاریر اور کسی قسم کا کوئی ویڈیو، آڈیو پیغام یا تصاویر نشرکرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔

واضح کرتا چلوں کہ نواز شریف کی تقریر پر پابندی کی رپورٹ ہونے والی خبر کی چیف جسٹس نے تردید کر دی تھی جبکہ الطاف حسین کا کیس ایک مختلف نوعیت کا ہے۔ اُن کے بیانات پرمکمل پابندی ہے۔ 07 ستمبر 2015ء کو اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف اور ان کے درباریوں کے ہرگز وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی ہمارے خلاف بھی اس قسم کا ماحول بن سکتا ہے۔ جیسے بیانات اپوزیشن آج نواز شریف کے خلاف دے رہی ہے، اس وقت یہی کام برسرِ اقتدار بھی انجام دے رہی تھے۔ تب یہ الطاف حسین کے خلاف عدلیہ کے فیصلے کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔

ایم کیو ایم رہنما اُس وقت نواز شریف سے ملاقات کیلئیے ترستے اورانھیں اپنے لیے نجات دہندہ سمجھ کر بار بار ملنے کا وقت لیتے مگر پھر بھی ملاقات نہ ہو پاتی تھی۔ اس وقت ایم کیو ایم کا موقف تھا کہ کراچی میں جاری آپریشن سے کارکنوں کی گرفتاری اور بانی کی تقاریر پر پابندی عائد کر کے پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور اگر آج نظردوڑائی جائے تو موجودہ ن لیگ کا موقف بھی کچھ اُس سے مماثلت رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ کچھ سازشیوں نے جےآئی ٹی کے ساتھ مل کر نوازشریف کو اقتدارسے الگ کیا جس پر ن لیگ کو ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا سہارا لینا پڑا۔

نواز شریف دورِ اقتدار میں رہتے ہوئے صرف ایم کیو ایم سے ہی مشکل وقت میں ملاقات سے کتراتے نہیں رہے بلکہ مفاہمت پسند پرانے دوست آصف زرداری نے جب اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیا تو انھیں بھی نواز شریف سے ملاقات کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن شاید اس وقت نواز شریف وزارت عظمیٰ کے سمندر میں غوطہ زن تھے۔ منرو محو تبسم چین کی بانسری بجا رہا تھا لیکن اُدھر زرداری صاحب ملاقات کے طلب گار تھے اور حکومتی ارکان اس وقت بھی آصف زرداری کے بیان کی مذمت کرتے پھر رہے تھے، مگر پھر وقت بدلا اور سب نے دیکھا کہ وہی نواز شریف نااہل ہونے کے بعد زرداری کی راہ تکتے رہے اور برملا ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کرتے دکھائی دیے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ جیسے کو تیسا ہی ملتا ہے اور زرداری صاحب نے بھی ایک نہ سنی!

اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر یہ بات ذہن نشیں کرلی جائے کہ آج کوئی چینل کسی وجہ سے بھی بند کردیا گیا ہے تو بجائے اسے مضبوط کرنے، اس کا ہاتھ تھامنے کے اپنی ریٹنگ اوپر آنے پر خوشیاں منانے والے اس عمل کے خلاف واضح لائحہ عمل مرتب کریں۔ ساتھ ہی پیشگی ذکر کرتا چلوں کہ ’’اگر‘‘ نوازشریف جیل چلے جاتے ہیں تو بجائے اس پر خوشیاں منانے، مٹھائیاں باٹنے اوراسے خوش آئند اقدام کہنے کے اس شعر کو یاد کرلیں،

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے، یہ ہواکسی کی نہیں