counter easy hit

آزادی اظہار بجا، مگر حدود کا تعین بھی ضروری ہے

یوں تو آزادئ اظہار ان بنیادی حقوق میں سے ہے جن کی آئین پاکستان میں مکمل ضمانت دی گئی ہے لیکن وطن عزیز میں آزادئ اظہار بالخصوص صحافت ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہی ہے۔ قابل ذکر طور پر قبائلی علاقہ جات، بلوچستان اور کراچی میں ورکنگ جرنلسٹس کو دیدہ و نادیدہ قوتوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ سلسلہ کسی حد تک رکا ہوا تھا لیکن اس میں اچانک تیزی تب دیکھنے میں آئی جب وفاقی دارالحکومت میں پہلے مطیع اللہ جان کی گاڑی پر پتھراؤ کیا گیا اور پھر احمد نورانی پر حملے کا واقعہ پیش آیا۔

مطیع اللہ جان ایک معروف کالم نگار اپنے بچوں کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر پتھر برسا دیئے۔ اس سلسلے کا دوسرا تازہ واقعہ 28 اکتوبر 2017 کو سینئر صحافی احمد نورانی کے ساتھ پیش آیا۔ احمد نورانی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں راولپنڈی گئے تھے کہ واپسی پر اسلام آباد کے علاقے زیروپوائنٹ کے قریب تین موٹرسائیکلوں پر چھ مسلح افراد نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ جائے وقوعہ پر پولیس اہلکار موجود تھے لیکن کسی نے انہیں بچانے کی کوشش نہیں کی تاہم لوگوں کے جمع ہونے پر حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے دو ہفتے قبل صوابی میں بھی ایک مقامی صحافی ہارون خان کو قتل کردیا گیا تھا جس کا ذمہ دار عسکریت پسندوں کو قراردیا جارہا تھا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے الگ الگ علاقوں میں صحافیوں کو مختلف قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

احمد نورانی پر حملے کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو مبصرین کی آراء منقسم دکھائی دیتی ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ احمد نورانی کی جارحانہ اور جانبدارانہ کورٹ رپورٹنگ خصوصاً پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران حکمران جماعت کے حق میں خبریں دینا انہیں بھاری پڑا۔ انہیں سپریم کورٹ کے جج اور پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز افضل کو متعدد بار ٹیلیفون کرنے اور اس ضمن میں خبریں لگانے پر توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹس کا بھی سامنا ہے۔ احمد نورانی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی خاصے سرگرم تھے تاہم گزشتہ چند دنوں سے انہوں نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ غیرفعال کردیا تھا۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے نورانی کے ایک اور صحافی ساتھی عمر چیمہ کو بھی نامعلوم افراد نے اغوا کرکے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ 20 اپریل 2014 کو معروف اینکر اور کالم نگار حامد میر کو کراچی میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ ایک ٹاک شو کی میزبانی کرنے کراچی آئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جبری گمشدگیوں اور بلوچستان کے حوالے سے پروگرام کرنے پر کچھ حلقے ان سے ناراض تھے جبکہ پاکستان کے ایک معروف نیوز میڈیا گروپ کے اخبارات اور چینل کو تحریک انصاف کے دھرنے میں بھی حکومتی مؤقف کی تائید اور جانبدارانہ رپورٹنگ پر مسلسل مخالفانہ رویّے کا سامنا رہا۔

دنیا بھر میں صحافیوں کے تحفظ کےلیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’’پریس ایمبلم کیمپین‘‘ کے مطابق پاکستان جو ایک سال پہلے صحافیوں کےلیے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر تھا، اب چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے چھ مہینے کے دوران پاکستان میں پانچ صحافی قتل ہوئے جبکہ صحافیوں کو ڈرا دھمکا کر ذمہ داریوں سے روکے جانے کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال صحافیوں کےلیے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں پاکستان اور بھارت دونوں چھٹے نمبر پر تھے، لیکن سال رواں کے دوران پاکستان میں یہ صورت حال مزید خراب ہوگئی جبکہ بھارت کی سابقہ پوزیشن برقرار ہے۔ گزشتہ سال کی پہلی ششماہی میں دنیا کے مختلف ملکوں میں 74 صحافی قتل ہوئے جبکہ رواں سال کی اسی مدت میں یہ تعداد 50 رہی۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ رواں سال میں عالمی سطح پر صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے حالات بہتر ہوئے ہیں، تاہم اسی مدت میں میکسیکو، عراق اور افغانستان کے بعد پاکستان کا صحافیوں کےلیے خطرناک ترین ملک قرار پانا اس بناء پر بالخصوص قابل غور اور لائق توجہ ہے کہ پاکستان میں امن وامان کی صورت حال دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشن کے نتیجے میں پچھلے کئی برسوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئی ہے۔

اس معاملے میں یہ پہلو خاص طور پر پیش نظر رکھا جانا چاہیے کہ چھ ماہ کے دوران قتل ہونے والے پاکستانی صحافیوں میں سے بیشتر پاک افغان سرحدی علاقے میں لقمہ اجل بنے ہیں۔ لہٰذا مجموعی طور پر صحافیوں کے تحفظ کےلیے دوسرے ضروری اقدامات کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحدی علاقوں میں فرائض انجام دینے والے صحافیوں کی حفاظت کا خصوصی بندوبست ضروری ہے۔

صحافت معاشرے کا آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس کا کام معاشرے کو اُس کا صحیح عکس دکھانا ہوتا ہے۔ صحافی اپنی سی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ جتنی اُن کی رسائی ہے اور جتنا وہ کر سکتے ہیں، معاشرے کی خدمت کرسکیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صحافت صرف اسی صورت میں مؤثر ثابت ہوسکتی ہے جب اسے آزادانہ کام کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ صحافت اور معاشرے کا چولی دامن کا ساتھ ہے، صحافت اگر صحیح نہج پر ہو تو یہ ایک مصلح، ناصح اور اُستاد کا کردار ادا کرسکتی ہے اور اگر اس کی اپنی سمت درست نہ ہو تو یہ پورے معاشرے کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل سکتی ہے جس سے نکلنا ممکن نہیں۔

پہلے وقتوں میں صحافت چند اخبار نما رسالوں اور ماہناموں کا نام تھا۔ جوں جوں اس نے ترقی کی، یہ ”روزنامہ“ کی شکل اختیار کرتی چلی گئی لیکن الیکٹرونک میڈیا پر حکومتی کنٹرول برقرار رہا۔ آہستہ آہستہ دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ معاشرے ایک دوسرے کے قریب آنے لگے، ایک دوسرے کے خیالات کا احترام پیدا ہوا، بے شمار ریڈیو اسٹیشنز اور ٹی وی چینلز آئے، پھر انٹرنیٹ نے تو گویا صحافت کا رُخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ انٹرنیٹ بڑے مانیٹرز اور سی پی یوز سے سکڑتا ہوا چھوٹی سی ڈیوائس میں چلا آیا اور اب ہر شخص کے پاس ایک اسمارٹ فون کی شکل میں پورا کمپیوٹر موجود ہے۔

صحافت سے مراد اب صرف اخبارات و رسائل نہیں بلکہ ٹی وی چینلز، ریڈیو، انٹرنیٹ، فون، ایس ایم ایس سبھی شامل ہیں، بلکہ اب تو اس کی صورت پہلے سے کہیں زیادہ مؤثر ہوگئی ہے۔ اگر یہ معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانا چاہے تو اس سے بہتر اُستاد اور کوئی نہیں؛ اور بگاڑنا چاہے تو بدتر کوئی نہیں۔

اب اتنی طاقتور شئے کو کنٹرول کیا جانا بھی ضروری ہے۔ مگر آخر اسے کنٹرول کرے کون؟ حکومت یا عوام؟

آج کی صحافت حکومتوں کو للکار رہی ہے اور بڑے بڑے آمر اس کے سامنے گھٹنے ٹیکتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے ہم صحافت کی طاقت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ وہ طاقت ہے جس کا صحیح استعمال وقت کے بڑے سے بڑے جابر کو اُڑا کر رکھ سکتاہے۔ ہمارے بعض اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی غیر ذمہ دارانہ روش پوری صحافت کے ذمہ دارانہ کردار کو متاثر کررہی ہے۔ اس ضمن میں صحیح لائحہ عمل طے ہونا چاہیے۔

’’آزادی ذمہ داری کا نام ہے‘‘ کی حکمت عملی کو اپنایا جائے اور خود احتسابی کی روایت قائم کی جائے۔ صحافت کےلیے یہی لائحہ عمل باعث اعزاز ہوسکتا ہے۔ قومی یکجہتی، ملکی سالمیت اور استحکام کے خلاف کوئی بھی بات شائع یا نشر نہ کریں خواہ وہ کسی نے بھی کہی ہو۔ اسی طرح ملک کے اساسی نظریئے کے خلاف اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والی بات بھی شائع یا نشر کرنے سے گریز کریں۔ معاشرے میں مایوسی پیدا نہ ہونے دیں، خواہ بات کرنے والا کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو۔ حب الوطنی اور یکجہتی کو فروغ دینے کےلیے ملک کے مختلف حصوں سے ان لوگوں کو نمایاں جگہ ملنی چاہئے جن کی حب الوطنی مشکوک نہ ہو۔ قومی اداروں کے بارے میں خبریں شائع کرتے وقت احتیاط سے کام لیا جائے لیکن جو بات عوام کے مفاد میں ہو اُسے ضرور جگہ ملنی چاہیے۔ ایسے لوگوں کو جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں، جنہیں صحافتی آداب و اخلاقیات کا علم نہیں، انہیں اس شعبے سے دور رکھنا چاہیے۔