counter easy hit

ظلم کی انتہا ہو گئی : سانحہ ساہیوال کے بعد ایک اور دل خراش خبر

کراچی(ویب ڈیسک )کراچی کے علاقے کورنگی میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے میاں بیوی زخمی گئے ، ہسپتال میں خاتون کی حالت تشویش ناک بیان کی جارہی ہے ۔نجی ٹی وی کے مطابق کورنگی نمبر 4 میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے میاں بیوی زخمی ہوگئے، فائرنگ سے زخمی خاتون حاملہ ہےجس کی حالت تشویشناک بیان کی جاتی ہے ،ایمرجنسی انچارج جناح ہسپتال کاکہنا ہے کہ خاتون کو آپریشن تھیٹر میں طبی امداد دی جارہی ہے جبکہ اس کی شوہر عدنان کی حالت خطرے سے باہر ہے، پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہونیوالوں کی شناخت عدنان اور ثاقبہ کے ناموں سے ہوئی ہے، زخمی عدنان کے سر پر اور ثاقبہ کو پسلی میں گولی لگی ہے۔ایس ایس پی کورنگی کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات کررہے ہیں،پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں میاں بیوی ملزمان کی فائرنگ کی زد میں آکر زخمی ہوئے ہیں۔دوسری طرف سینئر صحافی و اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ سانحہ ساہیوال کی 2 ایف آئی آرز درج کرکے دراصل سی ٹی ڈی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ پنجاب میں ماورائے عدالت قتل ہوتے ہیں عمران خان کو سی ٹی ڈی کی تعریف کی بجائے تفتیش کرنی چاہیے۔انہوں نے کیس کی ایف آئی آر کے اندراج کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا لواحقین چاہ رہے تھے کہ پولیس اہلکاروں کے نام دیے جائیں لیکن سی ٹی ڈی نے اپنی ایف آئی آر میں ذیشان کو نامزد کردیا ہےاور یہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔ حکومت ایک طرف تو کہہ رہی ہے کہ عمران خان بہت دکھی ہیں لیکن دوسری طرف مظلوم کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ہے جبکہ ظالم نے ایف آئی آر میں مظلوم کو نامزد کردیا ہے۔ ایک ہی کیس کی دو ایف آئی آرز درج کرکے قانونی پیچیدگاں پیدا کی جارہی ہیں جس سے آخر میں سی ٹی ڈی کو فائدہ ہوگا۔حامد میر نے سی ٹی ڈی کی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ نہ تو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے بلٹ پروف جیکٹس پہن رکھی تھیں اور نہ ہی سی ٹی ڈی کی گاڑی پر نمبر پلیٹ ہے۔ انہوں نے رنگ برنگے کپڑے پہن رکھے تھے جس سے لگتا یوں ہے کہ یہ پکنک منانے گئے ہوئے تھے اور انہوں نے سوچا کہ یہ گاڑی جارہی ہے تو چلو اس کو ماردو۔خیال رہے کہ کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک قانونی سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ایک ہی کیس کی دو ایف آئی آرز درج نہیں کی جاسکتیں۔