counter easy hit

سیاسی کارکنوں کا امتحان

سیاسی کارکن ہر سیاسی جماعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی محنت اور قربانیوں ہی سے سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت عوام میں مقبول ہوتی ہے اور اقتدار کی منزل تک پہنچتی ہے۔ ماضی کی سیاست چونکہ نظریاتی ہوتی تھی، سو اس کے کارکن بھی نظریاتی ہوتے تھے، یہ صورتحال بھٹو کی سیاست میں آمد تک جاری رہی لیکن بھٹو کی سیلابی سیاست میں نظریاتی کارکن اس طرح بہہ گئے کہ آج تک وہ گمشدہ کی فہرست سے باہر نہ آ سکے۔

بھٹو ایک ذہین سیاستدان تھے، انھیں اس حقیقت کا پوری طرح اندازہ تھا کہ غیر نظریاتی جماعتیں ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بن سکتیں، اگر خطرہ بن سکتی ہیں تو صرف نظریاتی جماعتیں۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد ہی انھوں نے روٹی، کپڑا اور مکان، مزدور کسان راج کا نعرہ لگایا، اور عوام کو بتایا کہ اسلامی سوشلزم ہماری سیاست کا محور ہو گا۔ اس فلسفے سے بائیں اور دائیں دونوں بازوؤں کے سیاسی کارکنوں کا شکار کیا گیا۔

بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں بڑی حد تک نظریاتی انتشار کا شکار ہو کر رہ گئی تھیں اور ان کے کارکن مایوسیوں کا شکار ہو گئے تھے۔ ایسے ماحول میں بھٹو کے نعرے اس قدر پرکشش ثابت ہوئے کہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اپنی پارٹیاں چھوڑ کر بھٹو کی جماعت میں آنے لگی اور بائیں بازو کی کمزور سیاست دم توڑنے لگی اور مذہبی جماعتوں کے کارکنوں میں بھی بھٹو کے لیے نرم گوشہ پیدا ہونے لگا۔

پختہ کار سیاسی کارکن سیاسی جماعتوں کے منشور کے وفادار ہوتے تھے لیکن بھٹو کی طلسماتی شخصیت نے سیاسی کارکنوں کو منشور کی وفاداری سے بیگانہ کر کے شخصیت پرستی کے سحر میں اس طرح مبتلا کر دیا کہ یہ سحر پیپلز پارٹی کی طاقت بن گیا۔ شخصیت پرستی جاگیردارانہ کلچر کا ایک اہم حصہ ہے اور سیاسی کارکن اس کلچر سے اس قدر نتھی ہو گئے کہ پارٹیوں کے منشور ان کے لیے بے معنی ہو کر رہ گئے۔

یہ کلچر کسی ایک جماعت تک محدود نہ رہا بلکہ ساری سیاسی جماعتوں میں گھس آیا، حتیٰ کہ مڈل کلاس کی سیاسی جماعتیں اور مڈل کلاس کی مذہبی جماعتیں بھی اس کلچر سے نہ بچ سکیں اور تمام جماعتیں اپنے منشور کے بجائے اپنی قیادت سے پہچانی جانے لگیں۔ اس سیاست کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری سیاست خاندانوں کی سیاست میں بدل گئی۔ نظریات اور منشور سب ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گئے۔

صنعتی اشرافیہ کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ یہ اشرافیہ فیوڈل اشرافیہ سے نسبتاً ترقی پسند ہوتی ہے لیکن ہوا یہ کہ صنعتی اشرافیہ، فیوڈل اشرافیہ سے زیادہ پسماندہ بن گئی اور خاندانی سیاست کو اس قدر مضبوط اور مستحکم کیا کہ آج ملک بھر میں خاندانی سیاست حاوی ہے اور سیاسی جماعتیں نہ اپنے نظریات سے پہچانی جا رہی ہیں، نہ اپنے منشور سے، بلکہ ان کی پہچان ان کی سیاسی قیادت بنی ہوئی ہے اور یہ کلچر اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو گیا ہے کہ منشور اور نظریات ماضی کی روایتیں بن گئی ہیں اور خاندانی سیاست، سیاست جاریہ بن گئی ہے۔

جیسے جیسے 2018ء قریب آ رہا ہے، سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ لیکن دیکھا یہی جا رہا ہے کہ 2018ء کے ممکنہ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتیں نہ وقت کے تقاضوں کے مطابق منشور بنا رہی ہیں، نہ قومی مسائل کے حل کے لیے کوئی پروگرام پیش کر رہی ہیں، اس کے بجائے خاندانی سیاست کو مضبوط کر رہی ہیں اور عوام کو شخصیت پرستی کے سحر میں جکڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

یہ صورتحال اس لیے سنگین بنتی جا رہی ہے کہ جمہوری کلچر خاندانی سیاست کے سمندر میں ڈوبتا جا رہا ہے اور پاکستان میں جمہوری روایات مضبوط ہونے کے بجائے خاندانی سیاست کی روایات مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو پاکستان میں جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا، اس کے برخلاف پاکستان مغلوں کے دور میں واپس چلا جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی کارکنوں کی بڑی اکثریت خاندانی سیاست کے اندھے کنوئیں میں جا رہی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جاری سیاست میں اب بھی ایسے کارکن موجود ہیں جو پارٹیوں کے منشور اور نظریات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ایسے کارکنوں کی یہ ذمے داری اور امتحان ہے کہ وہ شخصیت پرستی اور خاندانی سیاست کے تباہ کن اثرات سے عوام کو آگاہ کریں اور اپنی اپنی پارٹیوں میں شخصیت پرستی اور خاندانی سیاست کے بھیانک نتائج کے خلاف لابنگ کریں۔ امید ہے کہ ایسے کارکنوں کو میڈیا کی حمایت بھی حاصل رہے گی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website