counter easy hit

خاتون اول بننے سے پہلے نبی کریم ؐ نے بشریٰ بی بی کو خواب میں کیا حکم دیا تھا ، وہ اور انکے گھر کی دیگر خواتین ننگے پاؤں پیدل چل کر دربار بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ تک کیوں جاتی ہیں ؟ ایسے حقائق جن سے آپ یقیناً ناواقف ہونگے

لاہور (ویب ڈیسک) مدینے کی سر زمین پر ننگے پائوں چلنے والےعمران خان پر اللہ تعالیٰ نے درِ کعبہ وا کردیا۔قدوسِ ذوالجلال خاتونِ اول پر اپنی بے پایاں رحمتیں سایہ فگن رکھے۔ جب مدینے کے سفرکی بات شروع ہوئی تو انہوں نے کہا میں نے تو نواحِ بابا فرید میں بھی کبھی جوتے نہیں پہنے۔
نامور کالم نگار منصور آفاق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔میں مدینہ النبی میں ایسی جسارت کیسےکر سکتی ہوں ۔’’یہ رتبہ بلند ملا ، جس کو مل گیا ‘‘۔بے شک خاکِ مدینہ و نجف جب سے عمران خان کی آنکھ کا سرمہ بنی ہے۔جلوہ دانش ِ فرنگ سنولا کر رہ گیا ہے ۔اُن کے خواب ،ان کی منزلِ مقصود واشنگٹن نہیں رہا،ریاست ِمدینہ بن چکی ہے۔ انہوں نے مشکل میں وائٹ ہائوس کی طرف نہیں گنبد ِ خضریٰ کی طرف دیکھا ہے ۔گزشتہ دنوں ایک فقیر سے بات ہوئی تواُس نے کہا عمران خان کی دیدہ وری پر خاکِ مدینہ کی خصوصی کرم نوازی ہے ۔انہیں تکمیلِ پاکستان کےلئے چُن لیا گیا ہے ۔ میں نے حیرت سے پوچھا ’’اس یقین کا کوئی سبب کوئی دلیل ‘‘تو فقیر نے کہا ’’جب محمد علی جناح برطانیہ چلے گئے تھے اورکسی کے کہنے پر بھی واپس آنے کیلئے تیار نہ ہوئے حتیٰ کہ علامہ اقبال بھی ناکام لوٹ آئے تھے تو اُس وقت قائد ِاعظم محمد علی جناح کوسرکارِ دوعالم ؐکی زیارت نصیب ہوئی تھی اور پاکستان جانے کا حکم ملا تھا ۔مولانا شبیر احمدعثمانی سے بھی جب پوچھا گیا کہ آپ تمام عمر قائداعظم کے مخالف رہے تو پھر آپ نے ان کی نمازِجنازہ کیوں پڑھائی تو انہوں نے کہا
۔’’مجھے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں قائد اعظم کا جنازہ پڑھاؤں‘‘۔ میری معلومات کے مطابق بشریٰ بی بی کو بھی خواب میں چارہ ساز بیکساں پیغمبر انسانیت ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور حکم ہوا کہ عمران خان کے ساتھ جڑ جائو (واللہ اعلم)۔‘‘فقیر نے جو کہا میں اُس سے انکار نہیں کرسکتا کیونکہ اُس فقیر نے کبھی کوئی ایسا لقمہ اپنے اندر نہیں جانے دیا جواس نے اپنے ہاتھوں سے نہ کمایا ہو ۔عمران خان کی باطنی تبدیلی سے مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک درویش کے پاس ایک آدمی آیا اُ س درویش نے اسے پہلے ہی روحانیت کے بلند مراتب تک پہنچا دیا۔ درویش کے باقی مریدوں نے درویش سے کہا کہ ہم اتنے عرصہ سے آپ کے ساتھ ہیں مگر ہمیں کچھ عطا نہیں ہوا اور اِس شخص پر پہلے ہی دن خصوصی عطا کر دی گئی ہے تو درویش بولا ،’’اِس شخص کے پاس دیا تھا ، دئیے میں تیل بھی تھا اور بتی بھی ڈلی ہوئی تھی بس اسے آگ دکھانے کی دیر تھی ۔ سو میں نے دکھا دی‘‘ اہل نظر یقین رکھتے ہیں کہ عمران خان ہی وہ شخصیت ہیں جس نے اس ملک کی تقدیر بدلنی ہے ۔
اگر ہم عمران خان کی ذات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ بے شک ایسا ہی کوئی لیڈرملک کی حالت بدل سکتا ہے۔ عمران خان وہ آدمی ہے جسے مال دو لت اور آل اولاد سے زیادہ اپنے وطن سے پیار ہے ۔کسی چیز کی حرص انہیں چھو کر نہیں گزری، ان سے زیادہ شاید کسی پاکستانی کو شہرت نہیں ملی دولت کی انہیں ضرورت نہیں ،اُن کے بچے اپنی والدہ کے سبب برطانیہ کے چند امیر ترین بچوں میں سے ہیں۔ مولانا مودودی سے کسی نے پوچھا تھا کہ ’’آپ کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا شخص آیا ہے جو اللہ کا ولی ہو تو انہوں نے کہا ’’ہاں میں ایک بار کہیں جارہا تھالاہور کے ریلوے اسٹیشن پر گیا تو قلی میرا سامان اٹھانے کےلئے دوڑے ۔میں نے دیکھاقریب ایک قلی نماز پڑھ رہا تھا۔میں نے تمام قلیوں سے کہا کہ سامان اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔اُس قلی نے جب نماز پڑھ لی تو میں نے اسے سامان اٹھانے کےلئے کہا ،اُس نے میرا سامان اٹھا کر ٹرین میں پہنچادیا ۔میں نے جیب سے ایک روپیہ نکالا اور اسےکہا کہ یہ تمہارا انعام ہے مگر اس نے بارہ آنے واپس لوٹاتے ہوئے کہا ، میری مزدوری چار آنے بنتی ہے،اُس سے زائد پیسے میرے لئے جائز نہیں
صاحبِ طرز کالم نگارہارون الرشید نے عمران خان جیسے اجلے آدمی کا ذکر کرتے ہوئے ایک بارابن خلدون کے یہ الفاظ درج کئے تھے ۔’’صلاح الدین ایوبی نے مصر،شام، فلسطین، اردن اور لبنان پر حکومت کی۔ وفات کے بعد حساب کیا گیا تو ایک گھوڑا، ایک شمشیر، ایک زرہ، ایک درہم اور چھتیس دینار کے سوا کچھ نہ تھا۔ سلطان شہید ، خواہش کے باوجود حج نہ کر سکے کہ مال ہی نہ تھا‘‘۔بے شک عمران خان تبدیلی کےلئے آئے ہیں مگر بیوروکریسی نے اس تبدیلی کے راستے میں پہاڑ کھڑے کئے ہوئے ہیں عمران خان کو بھی اُسی ڈگر پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر سابق حکمران چلتے رہےہیں آج میں ابرار علی کاایک ٹویٹ پڑھ رہا تھا ۔ ایک ویڈیو شیئر کر کےاس نے لکھا تھا ’’آج دل بہت رویا ۔لاہور میں ایک ضعیف سیکورٹی گارڈ پانی میں روٹی بھگو کر کھا رہا تھا ۔ اسد عمر کو یہ بات یاد رکھنا ہو گی کہ آئندہ کوئی ایسا ٹیکس نہ لگائے جس سے غریب آدمی کی زندگی اور تلخ ہو۔ گھریلو استعمال کی گیس پر ٹیکس بڑھانے کی کیا ضرورت تھی ۔ٹیکس ہی جمع کرنا ہے ۔ہر کار ہر گاڑی پر ماہانہ دوہزار روپے روڈ ٹیکس لگا دو ۔
جس شخص کے پاس ایک سےزائد گاڑیاں ہیں اس پر روڈ ٹیکس کی شرح ڈبل کردی جائے ۔ایک کروڑ کے قریب ملک میں گاڑیاں موجود ہیں۔دو سو چالیس ارب سال کے جمع ہوجایا کریں گے۔ کار رکھنے والے شخص کےلئے ماہانہ دو ہزار روپے دینا کوئی مسئلہ نہیں اتنے پیسے تو وہ روزانہ پٹرول پر خرچ کر دیتا ہے ۔پیسے جمع کرنے کےلئے ایک اور آسان طریقہ بھی ہے ریاست کی بہت زمین پڑی ہے کہ ہر بڑے شہر سے تیس چالیس کلو میٹر کے فاصلےپر ایک نیا شہر آباد کر دے۔ایک شہر میں ایک لاکھ پلاٹ بنا کر بیچ دئیے جائیں تو تقریباً سو ارب روپے جمع ہوسکتے ہیں ۔ضلع اور تحصیل کی سطح پر شہروں میں گورنمنٹ کی قیمتی زمینیں ہیں انہیں فروخت کرکے بھی کئی سو ارب جمع ہو سکتے ہیں۔ ملک کے ہر شخص کے اثاثوں کا حساب لگایا جائے اور ان اثاثوں کے مطابق ہر شخص پر ٹیکس لگایا جائے۔ٹیکس کا نام بدل کر عشر زکوٰۃ رکھ دیا جائے تاکہ لوگ اسے دیتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں ۔بے آباد زمینیں سرکاری تحویل میں لے کر بے زمین ہاریوں میں تقسیم کردی جائیں اور ٹیکس اُسی طرح وصول کیا جائے جیسے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جنگ کر کے منحرفین سے زکوٰۃ وصول کی تھی۔بہر حال اندھیرے چھٹ رہے ہیں ۔صبح طلوع ہونے والی ہے ۔بقول نذیر یاد’’کون سورج کو روک سکتا ہے ۔ شب کی فطرت میں ہے سحر ہونا۔