counter easy hit

باکمال ایجادات زریاب

Invention

Invention

تحریر : شکیل مومند
زریاب ایک حیرت انگیز صلاحیتوں والا شخص تھا ۔آج بھی دنیا کے ہر گھر میں اسکے ذہن اور تجربے کا کوئی نہ کوئی چیز زیراستعما ل ہیںکسی کو اس کا احساس نہیں کہ یہ سب کچھ ایک آزاد کردہ غلام کی مرہون منت ہے ابولحسن علی ابن نامی کا تعلق عراق سے تھا ۔بغداد میں ہارون رشید اور مامون الرشید کے دربا ر سے وابستہ رہا لیکن بغداد میں اس کی صلاحیتیں اجا گر نہ ہوپائیں ۔جو بعد میں ایک سماجی انقلاب کی بنیاد بنی۔جوہری طور پر وہ ایک موسیقار تھا۔آواز اس قدر خوبصورت تھی ۔کہ کا لی جلد کی مناسبت سے اسے زریاب کا خطاب مل گیابنیادی طور پر یہ ایک سیاہ پرندے جو اپنے خوش الحانی کی بدولت جاناجاتا تھا۔ایک دن خلیفہ ہارون الرشیدنے اسکی گائیکی سنی وہ حیران رہ گیا۔اسے یقین نہیں آیا کہ اس کے سلطنت میں اتنے عظیم گائیک اور موسیقار موجود ہیں۔خلیفہ کی تعریف اور انعامات سے ابو محسن کے خلاف حسد اور بغض کا ایک طوفان کھڑا کردیا۔

اسکا اپنا استاد اسحاق اپنے شاگرد کے جا ن کے درپے ہوگیازریاب کے پاس کوئی رستہ نہ رہا ۔لہذا اسے مجبورََا بغداد چھوڑنا پڑا۔وہ سپین (اندلس )میں آگیا ۔و ہاں سپین کے بادشاہ عبدالرحمن روم نے اسے اپنے دربار میں نوکری دے دی۔یہاں سے زریاب اور سپین کے حالات میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی۔ابومحسن انتہائی ذہانت کا مالک تھا ۔اس نے محسوس کیا کہ عبدالرحمن کے دربار میں کپڑے پہنے کا ذوق ناپید ہے عوام کا بھی یہی حال تھا لہذا اس کے صبح شام اور رات کے علیحدہ لباس کا تجربہ کر ڈالا یعنی ہر وقت کا پہننا مختلف ہونا چاہئے تھا۔اس کا تجربہ کامیاب ہو گیا ۔اس طرح دربار سے وابستہ لوگ اوقات کا ر کے مطابق ایک ملبوسات پہننے گئے ۔دیکھتے ہی دیکھتے پورے سپین اندلس میں تبدیلی آگئی موسم کے مطابق کپڑے پہننے کا رواج شروع ہوگیا۔

مغرب نے اپنا تما م فیشن زریاب کے تجر بے کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا ہے آج مغرب میں تمام فیشن کی بنیاد زریاب کے تجربات پر ہیں۔اس وقت اندلس میں دانتوں کو صاف کرنے کا کوئی نہیں تھا ۔ زریاب نے مقامی جڑیوں بوٹیو ں کو استعما ل کرکے دنیا کاسب سے پہلے ٹو تھ پیسٹ بنالیا۔اور لوگوں کو سمجھایا کہ اپنے دانتوں کی صفائی کا خیا ل رکھوں یہ اپنی جگہ ایک انقلاب تھا کہ پیرس میں اس وقت دانت صاف کرنے کا کوئی رواج نہیں تھا اور لوگوں نے زریاب کاٹوتھ پیسٹ فارمولا اپنا یا۔ اور اس وقت لوگ اپنے بال نہیں تراشتے اور مردوں کے بال شانے سے بھی لمبے ہوجاتے زریاب نے بال کو کاٹنے کا رجحان اپنایا یہ اپنی جگہ ایک جدت تھی اندلس کے تما م لوگ چھوٹے بال رکھنے لگے زریا ب نے لوگوں کو جسم کی صفائی کا نیا خیا ل دیا پہلے لوگ بیس دن بعد نہاتے تھے لیکن زریاب نے لوگوں کو دن میں ایک مرتبہ نہانے کی تلقین کی۔لوگ روزانہ نہانے لگے اس نے مردوں کو داڑھی شیو کرنے کا بھی طریقہ کار ترتیب دیا۔

Shampoo Hair Wash

Shampoo Hair Wash

مرد اس وقت عرق گلاب سے بال دھوتے تھے زریاب نے اس میں نمکیات اور خوشبوں تیل کا اضافہ کیا اس کے استعمال سے بال مضبوط ہوجاتے تھے یہ آج کے شیمپو کی قدیم شکل ہے اندلس میں لوگ مشروبات پینے کیلئے دھات کے بنے ہوئے برتن استعمال کرتے تھے امیر لوگ سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے تھے زریاب نے اپنے ہاتھوں سے شیشے کی انتہائی خوبصورت گلاس بنانے شروع کردیے کرسٹل کے تما م برتن اس شخص کے مرہون منت ہے بعد میں اس نے دسترخواں پر توجہ دی تمام لوگ سادہ ٹیبل پر کھانا کھاتے تھے بنیادی طور پر یہ رومن طریقہ کار تھا زریاب نے دنیا کا پہلا میز پوش بنایا جو کہ کھانے کی میز کے اوپر بچھایا جاتا جوکہ کپڑے یا چمڑے کا بنا ہوتا ۔کھانے پکانے کے انو کھے اور نئے طریقے متعارف کرائے ۔ نئے مصالحے اور چند سبزیوں کااستعمال کیا جاتاتھا ۔یہاں تک کہ اس نے سوپ کو کھانے سے پہلے پینے کی جدت شروع کی جو کہ آج تک قائم ہے۔

اسپراگس کو کھانے کیلئے استعمال کرنے ولا زریاب تھا ۔آج بھی مغرب میں اسپراگس کو مہنگی ترین سبزی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے موسیقی میں زریاب کو کمال فن حاصل تھا اس وقت گانے بجانے کیلئے اندلس میں طور نام کا ساز استعمال کیا جاتا تھا طور میں چار تار استعمال ہوتے تھے زریاب نے اس میں ایک اور تار کا اضافہ کیا کہتا تھا کہ چار تار موسیقی کو ظاہر کرتی ہے اور پانچواں تار انسان کی روح کی نمائندگی کرتا ہے اس طور بجانے کے لئے عقاب کی چونچ استعمال کرنا شروع کی آج گٹار بجانے کے لئے پلاسٹک کی نوک دار تکون استعمال کیا جا تا ہے۔

زریاب اندلس کی پوری موسیقی تبدیل کی زریا ب کے تجر بات نے آج تک کی سماجی دنیا بھر میں یوں اثر ڈالا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں با صلاحیت لوگ موجود ہیں لیکن کوئی انکی صلاحیت کو سمجھتا ہی نہیں ایسے اقدام اٹھائے گئے جو لوگوں کی سرپرستی کرسکے یہاں پر غربت کے ڈھیر ڈالے ہیں اور باکمال لوگ محنت اور مزدوری میں اکٹھے ہوئے ہیں۔

Shakeel Momand

Shakeel Momand

تحریر : شکیل مومند