counter easy hit

سینیٹ کے الیکشن اور سیاسی پارٹیوں کی ایک دوسرے پر لعن طعن

پارلیمنٹ آف پاکستان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایک ایوان بالا اور ایک ایوان زیریں۔ سینیٹ کو ایوان بالا جبکہ قومی اسمبلی کو ایوان زیریں کہا جاتاہے۔ سینیٹ کا انتخاب پہلی مرتبہ 1973ء میں ہوا اور اسے وفاق پاکستان کا نمائندہ ادارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں چاروں صوبوں سے 23 سینیٹرز چھ سال کی مدت کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں، 14 سینیٹرز جنرل نشست پر منتخب ہوتے ہیں جبکہ 9 مخصوص نشستوں میں سے، چار ٹیکنو کریٹ، چار خواتین اور ایک غیر مسلم سینیٹر کا بھی انتخاب عمل میں آتا ہے۔ فاٹا سے 8 جبکہ وفاق سے عام نشستوں پر2 سینیٹرز منتخب کیے جاتے ہیں۔ وفاق سے ایک ٹیکنو کریٹ اور ایک خاتون کی مخصوص نشست پر بھی سینیٹر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

سینیٹ کے انتخاب کے لیے ایسا طریقہ کار اپنایا گیا ہے کہ آدھے سینیٹرز ایسے وقت میں منتخب کیے جاتے ہیں جب آدھے سینیٹرز اپنی آدھی مدت یعنی تین سال مکمل کر چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح سینیٹ آف پاکستان میں ہر تین سال بعد الیکشن ہوتے ہیں جو آدھا ایوان منتخب کرتے ہیں۔

سینیٹ آف پاکستان کی اہمیت یہ ہے کہ قومی اسمبلی جو بل منظور کرے وہ بل سینیٹ میں پیش ہوتا ہے۔ سینیٹ سے بھی بل منظور ہو جائے تو ٹھیک اور اگر ترمیم کی جائے تو پھر قومی اسمبلی سے بھی ترمیم منظور کی جائے گی۔ سینیٹ کے کسی معزز رکن کی وفات کی صورت میں یا استعفیٰ کے باعث خالی ہونے والی نشست پر الیکشن کمیشن آف پاکستان تیس روز کی مدت میں ضمنی انتخاب کرانے کا شیڈول جاری کرتی ہے۔

اگرموجودہ حالات کاجائزہ لیاجائےتو پاکستان مسلم لیگ ن کو بلوچستان میں ایک بڑا دھچکا لگا ہے لیکن اس کے باوجود قومی اورچار صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر تمام ایم پی ایز پارٹی پالیسی کے مطابق تین مارچ کو ووٹ دیں گے تو پاکستان مسلم لیگ ن کو104 ارکان کی نشستوں میں سے30 سےزائد نشستیں ضرور ملیں گی اور یوں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن 18 سال بعد سینیٹ میں سب سےبڑی جماعت بن سکتی ہے۔

دوہزاراٹھارہ الیکشن کا سال ہے۔ سینیٹ انتخابات کیلئے چاروں صوبوں سے کاغذات نامزدگی جمع کرادئیے گئےہیں جبکہ فاٹا اوراسلام آبادمیں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ عام انتخابات بھی اسی سال ہی ہوں گے۔ سینیٹ کے ساتھ ساتھ عام انتخابات کی تیاریاں بھی زوروں سے جاری ہیں۔ جس کا اندازہ حالیہ جلسوں سےلگایا جا سکتا ہے۔ جلسے ہوں، میڈیا ٹالک ہوں، سیاستدانوں کی تقاریر ہوں یا پریس کانفرنس، تمام جماعتوں کے رہنماء ایک دوسرےکی پگڑی اچھالنےمیں مصروف ہیں۔ کوئی کرپشن کے راگ الاپ رہا ہے اور کوئی سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ پر لعن طعن کر رہا ہے۔ کوئی اپنے صوبے کی پولیس کی تعریفیں کر رہا ہےتو کوئی اس ہی پولیس کو نشانے پر رکھے ہوئے ہے۔

انتخابات سینیٹ کے ہوں یا عام سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے اپنا منشور پیش کرناچاہئے۔ تاکہ ووٹر یہ جان سکے اس نے جس پارٹی کو ووٹ دینا ہے وہ عوام کی سہولت کیلئےکیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتےہیں۔ تمام جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے منشور کے ذریعے یہ بتائیں کہ وہ آئندہ پانچ سالوں میں عوام کیلئے کیا کریں گے۔ اب تک کسی پارٹی نے بھی اپنےمنشور کا اعلان نہیں کیا، ہرکوئی بس ایک دوسرےکو گالیاں دینےاور الزام لگانےمیں مصروف ہے۔

تمام سیاسی جماعتیں دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا منشور طے کریں، عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے جائیں۔ ملک اور قوم کو اس وقت سیاستدانوں کا گالم گلوچ کا کلچر نہیں بلکہ سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ اگر سیاستدانوں نے اپنے طور طریقے اور انداز تکلم نہ بدلا تو یہ جمہوریت کیلئے بھی خطرناک ثابت ہوگا۔ تمام جماعتوں کے رہنمائوں کو چاہئیے کہ وہ قوم کو ایسا لائحہ عمل اور منشور دیں جو اسے امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کی بلندیوں تک لے جائے کیوں کہ اگر عمر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تمام قائدین کا یہ آخری الیکشن ہوگا اور آئندہ الیکشن میں ان کی اولادیں پارٹی کی باگ ڈور سنبھالیں گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی بیٹی مریم نواز اور آصف زرداری کے بیٹے بلاول کے ساتھ ان کی بیٹی بھی الیکشن لڑے گی۔