counter easy hit

چٹی جاندے نیں پرانیاں کندھا ں۔۔۔۔۔ نئے پاکستان میں ایک پرانے صحافی کی انوکھی تحریر ملاحظہ کیجیے

لاہور(ویب ڈیسک)ہمارے جہاں گرد دوست چین کی ترقی سے بہت زیادہ متاثر ہیں ۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ جس طرح چین ٹیکنالوجی اور مختلف شعبوں میںتعمیر اور ترقی کر رہا ہے وہ بے مثال ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ چین اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔ نامور کالم نگار ڈاکٹر منظور اعجاز اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ بیسویں صدی کی وسطی صورت حال کو بحال کرنا چاہتا ہے۔لیکن یہ سارا کچھ بتا کر وہ آخر میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان سب باتوں کے باوجود زندگی امریکہ میں بہتر بسر ہوتی ہے۔ غالباً ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ میں جس طرح کی آزادیاں اور سماجی سہولتیں میسر ہیں وہ چین میں ناپید ہیں۔ اگر اسی پہلو سے دیکھیں تو تمام رپورٹوں کے مطابق اسکینڈنیویا (سویڈن، ڈنمارک، ناروے) کے ممالک شاید دولت میں امریکہ کی برابری نہیں کر سکتے لیکن وہاں کے لوگ بے حد مطمئن اور خوشی کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی اور فکری پیش قدمی بھی زندگی کا بنیادی عنصر ہے۔ بقول علامہ اقبال: آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا۔۔ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔۔ تاریخ جن مراحل سے گزرتی ہے اس میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے معاشرے مادی اعتبار سے بدل جاتے ہیں اور معاشی دولت پیدا کرنے میں بہت آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن ان کی اجتماعی فکری پس ماندگی اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے یا ایسا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ علاوہ بہت

سے ملکوں کے پاکستان اور ہندوستان بھی ایسے ممالک ہیں جن میں مادی اور معاشی کایا پلٹ بہت تیزی سے ہوئی لیکن سماجی سطح پر ایسا لگتا ہے کہ وہ زمانہ قدیم کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر تاریخ کو وسیع اور طویل المیعاد تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آخر کار بنیادی مادی تبدیلیاں سماجی ساخت کو نئے سرے سے ترتیب دیتی ہیں۔ اس کی فوری مثال سعودی عرب کی ہے جہاں معاشی تبدیلیوں کے نتیجے میں سماجی ڈھانچہ بدل رہا ہے اور عوام کو نئی آزادیاں میسر آ رہی ہیں۔ پچھلے چالیس سالوں میں تقریباً ساری دنیا میں بے مثال معاشی ترقی ہوئی ہے اور نئی دولت کے انبار لگ گئے ہیں۔ اسی دور میں مختلف ممالک میں روایت پسندی، مذہبی بنیاد پرستی، نسلی منافرت اور قومی عصبیت میں اضافہ ہوا ہے۔ بظاہر یہ روش مذکورہ بالا رجحان سے قطعی طور پر مختلف نظر آتی ہے یعنی مادی حالات کے بہتر ہونے سے سماجی بہتری نہیں آئی۔ لیکن ان ساری تبدیلیوں کو مختلف بلکہ متضاد انداز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ آسان لفظوں میں اس پہلو کو یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ معاشی تبدیلیوں کے نتیجے میں کونسی ایسی سماجی تبدیلیاں آئی ہیں جن کے رد عمل میں قدامت پرستی کے جنات بوتل سے باہر آئے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ میں بدلتی ہوئی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ امریکہ میں بظاہر اسی کی دہائی میں رونلڈ ریگن کے زمانے سے نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی میں اضافہ ہوا۔ سفید فام نسل پرستوں کے ملیشیاؤں (مسلح جتھے) اور ایونجیلیکل عیسائیوں (قدامت پرست عیسائی ملا) کا زبردست ابھار ہوا۔ اور لگتا یہ ہے کہ یہ رجحان بڑھتے بڑھتے ڈونلڈ ٹرمپ کی قبائلی سوچ تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن اس کا متضاد رخ بھی دیکھئے کہ اسی عرصے میں ایک سیاہ فام امریکی صدر منتخب ہوااور ہم جنسوں کو شادی کے حقوق میسر آئے۔ سیاہ فام کے امریکی صدر بننے کے رد عمل میں ٹی پارٹی جیسی دائیں بازو کی انتہا پسندی سامنے آئی جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہا پسند رجعت پسندی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دوتہائی ممبران نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سوشلزم کو اپنی شناخت بنایا۔ اسی پس منظر میں 2018 کے وسط مدتی انتخابات میں ایک سو سے زیادہ خواتین کانگریس میں پہنچ گئی ہیں۔ نئے منتخب ہونے والوں میں فلسطینی اور صومالیائی مسلمان خواتین کے علاوہ قدیم امریکی (ریڈ انڈینز) بھی شامل ہیں۔ کانگریس میں آنے والی اس نئی کھیپ میں بہت بڑا حصہ ترقی پسندوں کا بھی ہے جو کہ امریکی نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا ایجنڈا لے کر آیا ہے۔ گویا کہ رجعت پرستی کے شدید رد عمل کے باوجود تاریخ آگے بڑھ رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ رجعت پسندی میں شدت ہی اس لئے آرہی ہے یا آئے گی کہ پرانا نظام مسمار ہو رہا ہے اور زندگی نئے رنگ روپ میں سامنے آ رہی ہے۔ تاریخی عمل آہستہ آہستہ پرانے سماج کی جڑیں کھوکھلی کرتا جا رہا ہے جسے روکنے کے لئے قدامت پرست طاقتیں سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں۔ امریکہ میں باہر سے آنے والے رنگدار لوگوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بیس سالوں میں سفید فام اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔ تاریخ کے اس عمل کے بارے میں نجم حسین سید کی ایک نظم کے مصرعے ہیں:چٹی جاندے نیں پرانیاں کندھاں، نیانے ہتھ کنیاں دے۔۔۔۔۔۔ چٹی جاندے نیں منزلے دو منزلے، نیانے ہتھ کنیاں دے(بوندوں کے ننھے ہاتھ، پرانی دیواروں کو چاٹتے جا رہے ہیں۔ ایک منزلہ ہوں یا دو منزلہ، بوندوں کے ننھے ہاتھ ان کو چاٹتے جا رہے ہیں) پاکستان میں بھی بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور قدامت پرستی تیزی سے آنے والی سماجی تبدیلیوں کے خلاف رد عمل ہے۔ خواتین کے خلاف بھی تشدد اس لئے بڑھا ہے کہ اب وہ ایسی آزادیوں کی طالب ہیں جو ان کو میسر نہیں تھیں۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی طلاقوں کی شرح سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب خواتین پہلے جیسی غلامانہ زندگی گزارنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔چادر اور چار دیواری کا شور و غوغا بھی اس لئے ہے کہ اب نئی ٹیکنالوجی (موبائل فون) کے ہوتے ہوئے مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو روکنا ناممکن ہے۔ اب والدین کے بجائے لڑکیاں لڑکے خود اپنی پسند سے شادیاں کر رہے ہیں۔ تمام تر پابندیوں کے باوجود شراب اور دوسری منشیات کا تصرف بڑھ چکا ہے۔ گویا کہ معاشرہ زمینی سطح پر مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے،جن بوتل سے نکل چکا ہے جسے واپس ڈالنے کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں لیکن تاریخ کے پہیے کو الٹا گھمانا ناممکن ہے۔ اس لئے پاکستانی ریاست کے محافظوں کو چاہئے کہ وہ سماجی تبدیلیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ایسا نظری ڈھانچہ دینے کی کوشش کریں جو ٹھوس حقیقتوں سے مطابقت رکھتا ہو۔ وگرنہ بین الاقوامی تنہائی اور تنزل ملک کا مقدر بنارہےگا۔ رہا چین کا معاملہ تو وہاں بھی آخرکار سماجی اور سیاسی ڈھانچہ بدل کر رہے گا۔