counter easy hit

لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ ساہیوال کی سماعت4 فروری کو ھوگی۔۔۔

لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ ساہیوال کی سماعت4 فروری کو ھوگی۔۔۔
(ساہیوال سے اصغر علی مبارک کی تحقیقاتی رپورٹ)
سانحہ ساہیوال کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں دائر آئینی درخواست کی درخواست چار 4 فروری بروز پیر کو ھوگی۔سانحہ ساہیوال جےآئی ٹی رپورٹ میں چیلنج بھی کر دی گئی ہے جس میں سی ٹی ڈی اہلکاروں نے دوران تفتیش فائرنگ کرنے سے انکار کردیا ہے۔رپورٹ سینٹ میں بھی پیش کی جا چکی ہے جس میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا ھےدورہ ساہیوال کے دوران ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق سی ٹی ڈی کے اہلکاروں صفدر۔رمضان۔سیف اللہ اور حسنین نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ کار سوار موٹرسائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ فائرنگ بھاگنے والے افراد نے کی۔دوسری جانب مقتول کے بھائی نے جےآئی ٹی رپورٹ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔اور جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ دھرایا ھے۔جےآئی ٹی ٹیم چار روز سے ساہیوال میں موجود رھی اس دوران مدعی مقدمہ کو شناخت پریڈ کے لئے تین سمن بھجوائے گےمگر وہ حاضر بونے سے قاصررھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مدعی مقدمہ نے سمن وصول کرنے سے بھی انکار کردیا۔جےآئی ٹی کا کہنا تھا مدعی کو آنا چاہیے تھااور کیس کا حصہ بننا چاہیے۔مدعی کو جن معاملات پر اعتراض تھا اس کو جےآئی ٹی ٹیم کے سامنے پیش کرنا چاہیے ۔
مدعی مقدمہ کی نئی درخواست میں اعتراض اٹھایا گیا ہے کہآئی جی پنجاب نےاختیارات نہ بونے کے باوجودجےآئی ٹی ٹیم تشکیل دی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جےآئی ٹی غیر قانونی قرار دے کر تحقیقات سے روکا جائےاور تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائےواضح رھےکہ لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے لیے 2 رکنی بینچ تشکیل دیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ارکان کو 4 فروری کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیاتھا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لیے درخواست پر سماعت کی تھی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت عالیہ کے حکم پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب امجد جاوید سلیمی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیاتھا کہ ‘ابھی تک کیا انویسٹی گیشن ہوئی؟’تاہم درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ‘تمام گواہوں کے بیانات ریکارڈ نہیں کیے گئے’۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھےکہ ‘آئی جی صاحب یہ بڑے ظلم کی بات ہے’۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ ‘مجھے بتائیں، پولیس کو کیسے اختیار ہے کہ وہ سیدھی گولیاں چلائے’۔آئی جی پنجاب نے جواب دیاتھا کہ ‘گولیاں چلانے والوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، معاملے پر جےآئی ٹی بھی بنا دی گئی ہے جبکہ سی ٹی ڈی کے افسران کو بھی معطل کیا جا چکا ہے’۔
جناب چیف جسٹس نے استفسار کیاتھا کہ ‘انکوائری کتنےدن میں مکمل ہوگی، ٹائم بتا دیں’؟ جس پر آئی جی پنجاب نے بتایاتھا کہ ‘مکمل انویسٹی گیشن کے لیےکم از کم 30 دن چاہئیں’۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےتھے کہ ‘اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، تمام ڈی پی اوز کو آگاہ کر دیں’۔جسٹس سردار محمد شمیم خان نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ ‘جوڈیشل کمیشن بنانا صوبائی حکومت کا اختیار نہیں، وفاقی حکومت کا ہے’۔جس پر وکیل نے جواب دیا تھاکہ ‘جوڈیشل کمیشن کے لیے وفاقی حکومت کو درخواست دے دی ہے۔گزشتہ سماعت کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے معاملے کی اہمیت کے پیشِ نظر سماعت کے لیے 2 رکنی بنچ تشکیل دیتے ہوئے 4 فروری بروز پیر کو جے آئی ٹی ارکان کو ریکارڈ سمیت ہائیکورٹ طلب کیا ھے۔

بعدازاں کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔واضح رہے کہ 19 جنوری کی سہہ پہر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں میاں بیوی اور ان کی 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور تین بچے بھی زخمی ہوئے جبکہ 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کیا گیاتھا۔واضح راھے کہ واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔

میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا، دوسری جانب واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، جس کی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیاگیا