counter easy hit

صحرائے تھر: خطہ بے زر

بھوک پھرتی ہے میرے شہر میں ننگے پاؤں

رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے

آج اکیسویں صدی میں بھی جنت ارضی پاکستان میں تھر ایک ایسا جہان ہے جسے حیات جدیدہ، معاشرے کے بدلتے رنگوں، آسمان کی وسعتوں کو چھوتی دنیا، قلوب و اذہان اور افکار کے تنوع، سہولیات اور آسائشات کے نت نئے ادوار اور ذہن رسا کی بلند پروازیوں سے کچھ معاملہ نہیں۔ بے زری عام ہے جبکہ بھوک اور افلاس کا دور دورہ ہے۔ جدید معاشرت کی چکاچوند اور سہولت بھری زندگی سے تعارف تو دور کی بات، بنیادی انسانی ضروریات مثلاً صحت کی نعمت، تعلیم کا نور، مناسب غذا کی دستیابی، ذرائع رسل و رسائل کی آسانیاں اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہ ہیں۔

بے وسائل تھری عورت لوہار کی مزدوری سے لے کر اونٹوں اور گدھوں کے متبادل کے طور پر خدمات سر انجام دیتی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے پانی کے بھاری بھر کم ڈول کنووں سے کھینچتی ہے، پھر انہیں گھڑوں میں ڈالے سر پر اٹھائے تپتے صحرا کے سینے پر ریت میں لمبے سفر طے کرتی اپنی مجبوری اور بے کسی کا اظہار کررہی ہے۔

رہی بات مردوں کی، تو ان کی اکثریت خالق کائنات کی خوبصورت دنیا کے نظاروں اور سہولیات کا لطف اٹھائے بغیر ہی اس جہان فانی سے کوچ کرجاتی ہے۔ اور جو زندہ ہیں وہ مہاجن اور ساہوکاروں کو اپنے مقدر کا خدا سمجھ کر ان کی محتاجی میں زندگی کے شب و روز گزار دیتے ہیں، جبکہ نومولودوں کی اکثریت زندگی اور موت کے بیچوں بیچ جنگ لڑتے لڑتے نحیفی و نزاری کے عالم میں شاہراہ حیات پر ٹوٹے بدن کے ساتھ اپنا سفر شروع کرتی ہے۔

ان محرومیوں اور وسائل کی کمی کے باوجود تھر مختلف مذاہب کا مرکز ہے اور خطہ امن کہا جاسکتا ہے۔ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

محل وقوع اور نام

تھرپارکر دنیا کے سترہویں بڑے صحرا، صحرائے اعظم تھر کا ایک حصہ ہے جبکہ اس کا دوسرا اور بڑا حصہ سرحد کے اس پار بھارت میں واقع ہے۔ اس کا تقریباً 75 فیصد حصہ بھارت جبکہ محض 25 فیصد حصہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں کراچی سے 400 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ دنیا میں قابل کاشت صحراؤں میں اس کا نواں درجہ ہے۔ صحرائے تھر سندھ کا رقبہ تقریباً 28000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے۔

تھرپارکر دو الفاظ یعنی ’’تھر‘‘ اور ’’پارکر‘‘ کا مجموعہ ہے۔ تھر کے معانی ’’صحرا‘‘ اور پارکر کے معنی ’’پار کرو‘‘ یا ’’دوسری طرف‘‘ کے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں تھر دو حصوں پر مشتمل تھا یعنی تھر اور پارکر جو ازاں بعد ایک لفظ تھرپارکر بن گیا۔ بنظر غائر دیکھنے سے بھی تھر کے دو حصے الگ الگ اور واضح نظر آتے ہیں۔ ایک مشرقی تھر جو ریت کے ٹیلوں سے اٹا پڑا ہے جبکہ مغرب کی جانب پارکر کسی حد تک مختلف، پہاڑی، زرعی اور آب پاش علاقہ محسوس ہوتا ہے۔ پارکر میں میلوں پھیلے ہوئے بلند و بالا پہاڑ دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ مون سون کی بارشوں کی آمد ان پہاڑوں پر سبزے کی چادر تان دیتی ہیں اور ان پہاڑوں سے نکلنے والے ندی نالوں میں بھی روانی عود کر آتی ہے۔ یہی وہ موقعہ ہوتا ہے جب تھر اور سندھ کے دیگر علاقوں سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بدلے ہوئے موسم سے لطف اندوز ہونے ننگر پارکر، عمر کوٹ اور نواحی علاقوں کا رخ کرتی ہے۔

تاریخ

تاریخی آثار اور ماہرین آثار قدیمہ کی رائے کے مطابق تھر کا صحرا لاکھوں سال قدیم ارضیاتی خطوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کے کوئلے کے بڑے ذخائر بھی اس خطے میں دریافت ہوچکے ہیں۔ آبادی کی اکثریت ہندو عقائد کی حامل ہے اور صدیوں سے قیام پذیر ہے۔ ہندو عقائد کے مطابق یہ صحرا ایک دور میں سمندر ہوتا تھا مگر ان کے دیوتا رشی کی دعا سے پانی ایک طرف ہٹ گیا اور یہ صحرا وجود میں آگیا۔

موسم

اپریل سے جولائی سخت گرمی کا موسم ہوتا ہے اور درجہ حرارت اکثر 40 سے 50 کے درمیان ہوتا ہے۔ اگست کا آخر یا ستمبر کا اوائل تھریوں کےلیے مون سون کی خبر لے کر آتا ہے اور گرمی کا زور ٹوٹتا ہے۔ بارشوں سے چار سُو خشک سالی کی جگہ ہریالی اور پژمردگی کی جگہ پرجوش زندگی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ دسمبر، جنوری اور فروری شدید سردی کے مہینے ہیں جبکہ باقی سارا سال اوسط گرم اور خشک موسم دیکھا جاسکتا ہے۔

لوک داستانیں

سندھ میں خواتین کا معروف نام ماروی، لوک داستان عمر ماروی سے ماخوذ ہے جو اسی خطہ کے ایک شہر عمر کوٹ کا ایک مشہور کردار ہے۔ ماروی کا نام سندھی عورت کی بہادری، عزت اور اپنی مٹی سے محبت کی علامت ہے۔

تاریخی مقامات

بھالوا میں ماروی کا کنواں، ثقافتی مرکز، عمر کوٹ میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر (ولادت: 1542) کی جائے پیدائش، گوری کا جین مندر ( تعمیر کردہ 1376)، ننگرپارکر کے قدیم مندر، تالاب، رشی کا استھان، ننگرپارکر میں والی گجرات سلطان محمود بیگڑا کی یاد گار مسجد، نو کوٹ کا قلعہ (جو 1814 میں تالپور حکمران میر مراد علی خان نے تعمیر کرایا)، اور عمر کوٹ کا قلعہ موسسہ عمر بن دودو۔

اہم شہر اور قصبے

تھر کا صدر مقام مٹھی ہے جبکہ عمر کوٹ، ڈپلو، کلوہی، چھاچھرو اور ننگرپارکر مشہور شہر اور قصبے ہیں۔

رسوم و رواج

خوشی کے مواقع اگرچہ بہت کم ہیں مگر جب کبھی ملیں تو انسانی فطرت کے عین مطابق تھری بھرپور لطف اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تھری فطرتاً مہمان نواز اور انسان دوست ہیں۔ میلہ محمود شاہ غازی، ننگرپارکر کی اہم ثقافتی اور سماجی تقریب ہے جس میں مقامی ثقافت کے جلووں کے ساتھ ساتھ اونٹ اور گھوڑوں کی نمائش اور دوڑ کے مقابلوں کا شائقین کو سال بھر انتظار رہتا ہے۔

باران رحمت کے طویل انتظار کے بعد جب تھری تھک جاتے ہیں تو بارش کی پیش گوئی کےلیے ایک رسم شروع کی جاتی ہے۔ گوٹھ کے سردار کی طرف سے سب لوگوں کی دعوت کی جاتی ہے، دعائیہ گیت گائے جاتے ہیں اور آخر میں باجرے اور دیسی گھی سے تیار کردہ میٹھے سے شرکاء کی تواضع کی جاتی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور بیٹھک میں لوگ اپنی آپ بیتیاں سناتے ہیں اور ایک دانا ان قصوں کو سن کر بتاتا ہے کہ بارش کتنی اور کب تک ہوگی۔

خواتین پورے بازوؤں پر مخصوص چوڑیاں پہنتی ہیں جبکہ مرد و خواتین اور بچے مقامی اور صوفیانہ موسیقی کے دلدادہ ہیں۔ گاؤں سے ایک مخصوص فاصلے تک درخت کاٹنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ زراعت میں ’’تعاونِ باہمی‘‘ کا عنصرنمایاں ہے۔ لوگ کھیتوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ شادی خاندان میں کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

پیشے اور ذرائع آمدن

تھر پر بات کرتے ہوئے سب سے نمایاں اور اہم چیز جو ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرواتی ہے، وہ دور دراز علاقوں میں لوگوں کا بے زر ہو نا ہے۔ تھر کے چھوٹے سے قصبے کلوہی اور ڈپلو کے گوٹھ محمد شریف میں 2010 میں راقم نے بچشم خود بارٹر سسٹم یعنی اشیا کا اشیا سے تبادلہ ہوتے دیکھا کہ جب ایک بے زر بچے نے دکاندار سے تقریباً دو کلوگرام باجرے کے عوض سبزی کا تبادلہ کیا۔ روزگار اور ذرائع آمدورفت نہ ہونے کی بناء پر تھری بے زری اور غربت کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔

زیادہ تر لوگ محدود زراعت، مویشی بانی، قالین بافی، لکڑہار اور مزدوری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ سڑکوں کے قریب واقع گوٹھوں کے بچے قریبی جھیلوں سے مچھلیاں پکڑ کر سڑک کنارے بیچنے کےلیے بیٹھے ہوتے ہیں جب کہ کچھ بچے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر گٹھے بنائے سڑک کنارے بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیاح یہ لکڑی گوشت بھوننے، کھانا پکانے، آگ تاپنے اور آگ جلانے کےلیے نقدی کے عوض خرید لیتے ہیں۔

ملازمت اور روزگار

تعلیمی سہولیات انتہائی کمترین سطح پر ہونے کی بناء پر مٹھی، ڈپلو، عمرکوٹ، اور کلوہی کے معدودے چند تھریوں کے علاوہ شاز ہی کوئی تھری کسی سرکاری ملازمت میں ہوگا۔ تعلیم اور جدید دنیا سے عدم واقفیت کی بناء پر تھری اپنی دنیا میں مگن اور شہری ملازمتوں اور سہولیات سے نابلد اور محروم ہیں۔ مقامی سطح پر قالین بافی کے علاوہ اکثر علاقوں میں خواتین روایتی گھریلو دستکاریوں اور کشیدہ کاری کے فن سے جڑی ہوئی ہیں اور گھر کی معاشی سرگرمیوں میں معاونت کرتی ہیں۔ تھر کی خوبصوت ’’مور رلی‘‘ (مور کی شبیہ سے مزین دستی بیڈ شیٹ) بہت دیدہ زیب ہے۔

امید کی جاسکتی ہے کہ تھر میں جاری توانائی کے منصوبے تھریوں کی زندگی میں ملازمت اور چھوٹے روزگار کے ذریعے کوئی مؤثر تبدیلی لائیں گے۔

پانی، زراعت، فصلیں، مال مویشی

تھر کی برسات پر بھی خزاں کے اندیشے غالب رہتے ہیں۔ خشک سالی کا شکار تھریوں کی زندگی میں سالانہ مون سون کا بارشی پانی بڑی اہمیت کا حامل ہے، گویا اس پانی سے ان کی زندگی کی ڈور بندھی ہوئی ہے۔ یوں کہا جائے کہ تھریوں کی ساری زندگی پانی کی تلاش میں گزر جاتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ شہری زندگی میں لوگ مال اسباب اوردولت ذخیرہ کرتے ہیں جبکہ تھر میں پانی کا ذخیرہ اولین ترجیح ہوتی ہے۔ یہی پانی ان کی محدود سی زراعت کو اور دوسرے لفظوں میں زندگی کی امنگ کو زندہ رکھتا ہے۔ باران رحمت کے چھینٹے تھر کے مزاج کو بدل دیتے ہیں اور ہر طرف زندگی لہلہانے لگتی ہے۔ بارش کی خبر سنتے ہی نقل مکانی کرجانے والے تھری، ماں دھرتی کی طرف واپس بھاگتے ہیں۔

بارش کی آمد بھی کئی شگونوں سے جڑی ہوئی ہے۔ تھریوں کے مطابق اگر بارش کے پہلے چھینٹے کمہار کے گھر پڑیں تو اس کا مطلب ہے کہ بارش کم ہو گی۔ اگر بنیے کے گھر پہلے بارش ہوگی تو سمجھا جاتا ہے کہ اناج صرف ضرورت کے مطابق پیدا ہوگا جبکہ ماشکی کے گھر بارش کے اولین چھینٹوں کا مفہوم زیادہ بارش کی آمد سمجھا جاتا ہے۔

زیادہ علاقوں میں اونٹ اور گدھے ہل کھینچنے کا کام کرتے ہیں جبکہ ننگرپارکر میں بیل یہ خدمت سر انجام دیتے ہیں۔ زرعی فصلوں میں باجرہ (گندم کا متبادل)، گوارا، چبھڑ، کھپ (مویشیوں کے چارے کے علاوہ کثیر الاستعمال فصل)، بوت بوٹی (کپاس کی متبادل) جبکہ دوا ساز اداروں کےلیے آک (تھر کا گلاب) اور تما سمیت بہت سی جڑی بوٹیاں بھی پہاڑی علاقوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔

بادلوں کی گڑگڑاہٹ شہر کے باسیوں کو خوف میں مبتلا کر دیتی ہے جبکہ تھریوں کےلیے یہ خوشیوں کا پیغام ہوتا ہے۔ آسمان پر کڑکتی بجلیاں یہاں خوف کی بجائے تھریوں کےلیے طویل خشک سالی کے خاتمے اور خوشحالی کی دستک سمجھی جاتی ہیں۔ یہ بارش جہاں ایک طرف تھر کی خشک سالی سے عاجز نقل مکانی کر جانے والوں کےلیے واپسی کے اسباب پیدا کرتی ہے وہیں شادی بیاہ اور خوشی کی مختلف تقریبات کا راستہ بھی کھلتا ہے۔ زرعی زمین کی مناسب نشاندہی نہ ہونے کے سبب کاشت کاری کے دعویداروں کے درمیان جھگڑے بھی سر اٹھاتے ہیں جنہیں مقامی پنچایت کے ذریعے حل کر لیا جاتا ہے۔ تھر کا کم و بیش ہر باشندہ بھیڑ بکریاں پالتا ہے اور ان کی فروخت سے مقدور بھر آمدن حاصل کرتا ہے۔ حکومتی عدم توجہی اور حیوانات کےلیے طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث اکثر ماتا کی بیماری اور وبا کی بنا پر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں اور یہ وہ وقت ہے جب تھر بے زر پر قحط اور بے زری دونوں بیک وقت حملہ آور ہوتے ہیں۔

جنگلی حیات

تھر بلاشبہ موروں کی جنت ہے۔ یہاں کا قدرتی ماحول قدرت کی اس حسین تخلیق کی افزائش اور رہائش کےلیے موزوں ترین تصور کیا جا تا ہے۔ مور، تھر میں جا بجا اپنی خوبصورتی کے جلوے بکھیرتے اور ماحول کو خوبصورت بناتے نظر آتے ہیں۔ درختوں، گھروں کی چھتوں، صحنوں اور کھیتوں میں موجود مور غول در غول اور اک دکا بھی نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کالا تیتر، بٹیر اور نایاب پرندے بھی تھر کی گرم آب و ہوا اور علاقہ نارا کی مرطوب زمین کو اپنے لیے جنت سے کم نہیں سمجھتے۔ 4300 مربع کلومیٹر پر مشتمل نارا نامی صحرائی علاقہ جو میرپور خاص اور تھر کا سنگم بھی ہے، پرندوں کی افزائش کےلیے اپنا ثانی نہیں رکھتا جبکہ رن آف کچھ کو بھی 1980 میں حکومت نے جنگلی حیات کےلیے محفوظ علاقہ قرار دے کر اس کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے۔ مٹیالی اور مرطوب سطح زمین کا حامل یہ علاقہ مقامی اور غیر مقامی پرندوں کی عارضی اور مستقل سکونت اور غذا کےلیے انتہائی سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔

مور اگر تھر کی زینت ہے تو مالا ہاری ’’تھر کا ہما‘‘ ہے۔ تھریوں کا خیال ہے کہ آغاز سفر پر اگر یہ پرندہ مسافر کے دائیں طرف آجائے تو مقصد سفر میں کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔

ذرائع رسل و رسائل

اس جدید دور میں بھی ہزاروں مربع کلومیٹر کے علاقے میں رابطے کے مؤثر ذریعے فون کی سہولیات مفقود ہیں جبکہ ڈاک یا کوریئر سروس کا مؤثر تصور تو ممکن ہی نہیں اور لوگ ایک دوسرے سے باہم مربوط نہیں۔ جبکہ سڑکیں صرف چند سو کلومیٹر پر مشتمل ہیں اور ’’کیکڑا‘‘ نامی ٹرک جو ؎جنگ عظیم کی نشانی ہے، آج بھی صحرائی ٹیلوں اور ٹبوں میں اونٹوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کےلیے واحد مشینی سواری اور رابطے کا ذریعہ ہے۔

سڑکیں اور کیکڑا

تھریوں کا طرز زندگی ریت کے ٹیلوں اور پہاڑی وادیوں کے جلو میں کبھی اونٹوں اور بکریوں کے ساتھ تو کبھی پیدل سفر حیات طے کرتے پروان چڑھتا ہے۔ ریتیلی زمین اور صحرا سے گویا ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اب تو شاید تھریوں نے سڑکوں اور پختہ راستوں کا مطالبہ اور عدم موجودگی کا گلہ شکوہ بھی چھوڑ دیا ہے۔ بھلا ہو قدیم جنگی ٹرک کیکڑا کا جو ریت کے بلند و بالا ٹیلوں کو اپنے چوڑے چکلے ٹائروں اور طاقتور انجن سے روندتا ہوا تھکے ماندے تھریوں کو ایک گوٹھ سے دوسرے گوٹھ اور گوٹھ سے قریبی قصبے تک لے جاتا اور لے آتا ہے۔ اگر کبھی یہ کیکڑا نامی ٹرک صحرائی صعوبتوں کے سامنے تھک ہار جائے اور راستے میں خراب ہو جائے تو ممکن ہے کئی دن تک مرمت نہ ہوسکے اور مسافر شدید مشکلات میں پیدل اپنی منزل تک پہنچیں۔

مشکلات اور مصائب زندگی

تھریوں کی اکثریت کا اہم ذریعہ معاش مویشی پالنا اور محدود زرعی سرگرمیاں ہیں۔ سخت گرم موسم میں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں اور ہنستے بستے تھری اپنا کل مال مویشی کھو بیٹھتے ہیں۔ بیماری سے مویشیوں کی موت تھریوں کو مالی طور پر قحط کے کنارے لے جاتی ہے تو خوبصورت موروں کو بھی ان جان لیوا امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عدم توجہ اور علاج نہ ہونے کے باعث موروں کی موت تھر کے ماحول اور گھر کی رونقوں کو ختم اور ہنستے بستے جنگل کو افسردہ کر دیتی ہے۔

خشک سالی کا طویل سفر تھریوں کو ہر سال تھکا دیتا ہے اور وہ دن نہایت کٹھن ہوتے ہیں جب خشک سالی کے باعث کنووں کا زیرزمین پانی کم ہوجاتا ہے اور خواتین کو زندگی کی بنیادی ضرورت ’’پانی‘‘کے بغیر خالی مٹکےلیے گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ جانوروں کا چارہ اور گھاس ختم ہو جاتا ہے اور تھری بے بسی کے عالم میں روزگار اور پانی کی تلاش میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

بے روزگاری اور ذرائع نقل و حمل

بے روزگاری بھی تھر کا ایک بڑا مسٔلہ ہے جس کا ذرائع نقل و حمل کی کمیابی سے گہرا تعلق ہے۔ دیگر ترقی یافتہ علاقوں کی طرح یہاں کاروبار یا روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گوٹھوں کا چھوٹا اور ایک دوسرے سے زیادہ فاصلے پر ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ حکومتی عدم توجہ کے باعث نہ تو سڑکوں کا وسیع جال بچھایا جاسکا اور نہ ہی منڈی یا شہر کے ساتھ پورے تھر کو منسلک کیا جاسکا، جس کی بنا پر مزدوروں کی نقل پذیری اور تلاش روزگار کی کوششیں منجمد ہوکر رہ گئی ہیں۔ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی باقاعدہ بس سروس بڑے قصبوں سے دور دراز گوٹھوں کےلیے دستیاب نہیں۔ مجبورا لوگ پیدل یا پھر اونٹ کی پشت پر سوار صحرا کی وسعتوں کو شکست دیتے نظر آتے ہیں۔

تعلیمی پسماندگی

تعلیمی ترقی کا تعلق براہ راست شہری سہولیات کی آسان فراہمی سے ہے۔ جب عام زندگی کےلیے ناگزیر سہولیات ناپید ہوں تو وہاں تعلیم جیسی ضرورت کو کہاں پورا کیاجائے گا؟ سندھ کے ہنستے بستے شہروں میں جب اسکول وڈیروں کے ذاتی تصرف میں نظر آتے ہیں تو وہاں تھر جیسے دور افتادہ اور قدامت پسند علاقے میں تعلیمی سہولیات کا ذکر چہ معنی دارد! تھری تعلیم کی سہولیات کے نہ ہونے کے باعث بھی پسماندگی کی دلدل میں رہنے پر مجبور ہیں۔

صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی

جدید دور میں حکومتیں مقامی ہوں یا مرکزی، صحت کو ہر انسان کا حق سمجھتے ہوئے کوشش کرتی ہیں کہ شفاخانے اور دواخانے دیہاتوں اور گوٹھوں کے قریب قائم کیے جائیں۔ تھر کے بڑے قصبوں میں شفاخانے اور طبیب بدترین انتطامی بحران سے دوچارہیں جہاں مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کہیں طبیب ہے تو دوا نہیں، اگر دوا ہے تو بستر نہیں، اگر بستر ہے تو مریض کےلیے گرمی سردی سے بچاؤ کا کوئی بندوبست نہیں۔ الغرض شعبہ صحت اپنی بد ترین حالت میں ہے۔ بطور مثال تھر کے صدر مقام مٹھی کے مرکزی اسپتال میں ہر سال نومولود بچوں کی ہونے والی اموات ہماری آنکھیں کھولنے کےلیے کافی ہیں۔ دور افتادہ صحرائی گوٹھ تو صحت کی سہولتوں سے بالکل محروم اور کوسوں میل دور ہیں۔ غیر معیاری پانی اور غذائی قلت کے اثرات بچوں، بڑوں اورخواتین کے چہروں سے عیاں ہیں۔

توجہ طلب امور

تھر میں موجود سڑکوں کے موجودہ ڈھانچے (روڈ انفراسٹرکچر) کو فی الفور دگنا کیا جائے۔

محض خواتین ڈرائیوروں کی بجائے تھر کے نوجوانوں کو بھی تھر کول منصوبے میں ترجیحی بنیادوں پر ملازمتیں فراہم کی جائیں۔

روایتی بے حسی کو ختم کرتے ہوئے تعلیم اور صحت کے (عملی طور پرموجود) مراکز قائم کیے جائیں؛ اور خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں اور اساتذہ کو خصوصی مراعات سے نوازا جائے۔

وبائی موسم سے پہلے پورے تھر میں بھیڑ بکریوں اور دیگر جانوروں سمیت موروں کےلیے محکمہ افزائش حیوانات کی ٹیموں کے ذریعے ویکسی نیشن کا بندوبست کیا جائے۔

دور دراز گوٹھوں کے قریب میٹھا پانی تلاش کرکے کنویں کھودے جائیں اور شمسی توانائی سے چلنے والی موٹریں لگا کر پانی کی آسان فراہمی یقینی بنائی جائے۔

زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کی وساطت سے چھوٹے پیمانے پر قرضوں کی فراہمی کے ذریعے زرعی اور مویشی بانی کے شعبے کی مدد کی جائے۔

عید قرباں پر کراچی مویشی منڈی میں ’’تھر منڈی‘‘ کے نام سے تھریوں کےلیے الگ حصہ بنایا جائے اور تھر کے مویشی بانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

تھر میں گھریلو دستکاری سے وابستہ خواتین کو مناسب فروختگی کے طریقوں سے واقفیت دلائی جائے اور ان کے تیار کردہ فن پاروں کو مناسب داموں خریدا جائے۔

تھر کو سیاحتی مقام میں بدلنے کےلیے حکومتی سطح پر ایک بڑا منصوبہ بنا کر تھر کو ترقی دی جائے اور سیاحوں کو متوجہ کیا جائے تاکہ سیاحوں کی آمد سے مقامی لوگوں کے ذرائع آمدن میں اضافہ ہو۔

تھر کی ثقافت اور تاریخ کو محفوظ کرنے کےلیے تھر عمر کوٹ میں پہلے سے موجود ثقافتی مرکز کو ’’ادارہ تاریخ و ثقافت تھر‘‘ میں تبدیل کیا جائے۔

تھر کی دھوپ اور گرم درجہ حرارت کا فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے شمسی توانائی کے چھوٹے بڑے منصوبے بناکر تھر کے گوٹھوں کو بجلی فراہم کی جائے۔

بھارت نے اپنے تھر میں اندرا گاندھی کے نام سے 400 کلومیٹر طویل نہر بنا کر تھر کو مقدور بھر سر سبز کرنے کی کوشش کی ہے اور تھر کی آب و ہوا سے مناسبت رکھنے والے پھل دار اور سایہ دار درختوں سمیت مختلف فصلوں کی کاشت اور باسیوں کی زندگی کو آسان بنایا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں تھر کو آبپاش علاقہ بنانے کی غرض سے دریائے سندھ کے کسی مناسب مقام سے ’’نہر قائد‘‘ کی تعمیر شروع کرے جو پار کرکے پہلے سے شاداب علاقے کی رونقوں کو دوبالا کرے اور نئے علاقوں کو بھی زیر کاشت لائے۔