counter easy hit

سوچ کی لہروں سے متحرک ہونے والی روبوٹ ٹانگیں

ROBOTIC, LEGS, WHICH, GET, MOVE, BY, WAVES, OF, THOUGHTS, ANOTHER, AMAZING, RESEARCH, BY, SCIENTISTS

ٹرمینیٹر سیریز کی فلمیں تو آپ نے ضرور دیکھی ہوں گی۔ ان فلموں میں ولین انسان نما مشینیں یا مشینی انسان تھے۔ ایسی مخلوق جو آدھی انسان اور آدھی مشین ہو اسے اصطلاحاً ’’ سائی بورگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ مخلوق قدرتی طور پر نہیں پائی جاتی مگر سائنس بڑی تیزی سے انسانوں کو سائی بورگ میں بدل ڈالنے کی طرف پیش قدمی کررہی ہے۔ جلد ہی ایسے انسان عام نظر آئیں گے، خودکار مشینیں جن کے جسم کا حصہ ہوں گی۔ وہ صرف سوچ کی لہروں یا خیالات کے ذریعے انھیں کنٹرول کررہے ہوں گے۔ایک کمپنی نے روبوٹک ٹانگیں بنالی ہیں، جنھیں صرف سوچ کی لہروں کے ذریعے حرکت میں لایا جاسکتا ہے۔ روبوٹک اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا شاہ کار یہ ٹانگیں مصنوعی اعضا تیار کرنے والی جاپانی کمپنی سائبرڈائن نے بنائی ہیں۔ یہ کمپنی ایک عشرے سے جدیدترین مصنوعی اعضا تیار کررہی ہے جنھیں  ہائبرڈ اسسٹو لمب( ہال ) کہا جاتا ہے۔سوچ کی لہروں سے حرکت میں لائی جانے والی یہ ٹانگیں ان مریضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی ہیں جو فالج، حادثے، حرام مغزکو پہنچنے والی چوٹ یا کسی بھی وجہ سے ٹانگوں کو حرکت دینے سے معذور ہوگئے ہوں۔ روبوٹ ٹانگوں پر مشتمل یہ پورا نظام پہن کر مفلوج یا متأثرہ شخص بہ آسانی کھڑا ہوجاتا ہے کیوں کہ اس میں کمر تک سپورٹ دی گئی ہے۔

یہ پورا سسٹم جدیدآلات، سینسرز اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی ( آرٹیفشل انٹیلی جنس ) پر مشتمل ہے ۔ یہ مشین جسمانی اعضا، نسیجوں یا بافتوں اور خلیوں کے نظام سے خارج ہونے  بایوالیکٹرک سگنلز یا برقی کرنٹ کو محسوس کرلیتی ہے۔ ان سگنلز کو ڈی کوڈ کرنے کے بعد یہ ان کے مطابق عمل کرتی ہے۔ ای ای جی بھی ایک ایسی ہی مشین ہے جو دماغ سے خارج ہونے والے اشارات کو محسوس کرلیتی ہے لیکن یہ ’ روبوٹ سوٹ ‘ دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کو محسوس کرکے ان کے مطابق عمل کرنے لگتا ہے۔

ان روبوٹ ٹانگوں یا سوٹ کا مقصد فالج زدہ اور معذوروں میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ عام انسانوں سے کم نہیں اور اپنی مرضی کے مطابق اپنی ٹانگوں کو حرکت دے سکتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی اداروں نے جاپانی کمپنی سے روبوٹ سوٹ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ ان دنوں امریکا کے بروکس سائبرنک ٹریٹمنٹ سینٹر میں اس سوٹ کی آزمائش کی جارہی ہے۔ مذکورہ سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر جنیوا تونوزی کہتے ہیں کہ اس نظام کی ایک خوبی یہ ہے کہ مریض انھیں اپنی مرضی کے مطابق استعما کرسکتا ہے۔جیسے دماغ میں خیال پیدا ہوتے ہی ہمارے اعضا اس کے مطابق عمل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور پھر ہمارے ارادے کو عملی جامہ پہنا دیتے ہیں، بالکل اسی طرح یہ روبوٹ سوٹ عمل کرتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ روبوٹ سوٹ مریضوں کی بحالی میں مدد دیتا ہے۔ابتدا میں یہ مفلوج ٹانگوں کو پوری سپورٹ فراہم کرتا ہے، بہ الفاظ دیگر مریض مکمل طور پر ان کے سہارے چلتا ہے۔ پھر جیسے جیسے مریض کی ٹانگوں کی مُردہ رگوں اور پٹھوں میں جان پڑنے لگتی ہے تو روبوٹ سوٹ کی سپورٹ اسی مناسبت سے کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ بالآخر ایک وقت ایسا آئے گا جب مریض مکمل طور پر صحت یاب ہوکر روبوٹ سوٹ سے نجات پالے گا، اور یہی اس روبوٹک نظام کا مقصد ہے۔