counter easy hit

ریحام خان نے حقیقت بتا دی

لاہور: بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کا کہنا ہے کہ میری کتاب ابھی شائع نہیں ہوئی تو یہ کسی کی ساکھ کو کیسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب کے مبینہ مندرجات تحریک انصاف نے جاری کئے ہیں اور کتاب کے مبینہ مندرجات سامنے لانے والوں کا عمل چوری کے زمرے میں آتا ہے۔

Raham Khan told the truthانہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ الیکشن کے دنوں میں کتاب شائع کرنے کا مقصد عمران خان سے انتقام لینا ہے۔ریحام خان نے کہا ان کی کتاب ابھی شائع ہی نہیں ہوئی تو یہ کسی کی ساکھ کو کیسے نقصان پہنچا سکتی ہے اگر کوئی جنس یا پیسے کی بنیاد پر پارٹی میں پوزیشن حاصل کرتا ہے تو یہ معاملہ عوام کے سامنے آنا چاہیے۔عمران خان کی سابق اہلیہ نے کہا میں نے کتاب بہت سوچ سمجھ کر ٹھنڈے دماغ سے لکھی ہے۔ یہ کتاب صرف عمران خان سے متعلق نہیں ہے بلکہ ان کی کتاب ذاتی تجربات پر مبنی ہے جس میں انہوں نے خود کو بطور بیٹی، بیوی اور والدہ کے طور پر پیش کیا ہے اور اپنی غلطیوں کو لوگوں کے سامنے رکھا ہے اسلیے یہ کتاب دوسروں کیلئے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق ریحام خان کی اس کتاب کے تحریک انصاف کےلیے سیاسی مضمرات کیا ہوں گے اس پر سیر حاصل بحث کی جا چکی ہے۔ ریحام خان کا ماضی بھی پوری طرح بے نقاب کیا جا چکا ہے اور ریحام خان اس سے بے نیاز ہو کر مقامی و عالمی میڈیا کی لائم لائٹ میں بھی بھرپور جگہ بنا چکی ہیں جو ان کا اصل مقصد تھا۔لیکن اس سارے قضیے کا ایک اہم پہلو ایسا ہے جس پر بات ہونا باقی ہے۔ ہم تمام سیاسی نظریات سے بالاتر ہو کر اس پہلو کا مختصر تجزیہ کریں گے۔ محترم قارئین سے عاجزانہ التماس ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے سیاسی عینک اتار دیں، تاکہ ہم یکسو ہو کر اس پر بات کر سکیں کہ ریحام خان کی اس کتاب کے ہمارے سماج پر دور رس اثرات کیا ہوں گے۔

عمرانیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ کسی معاشرے میں وہ عمل معیوب سمجھا جاتا ہے جسے معاشرے کے افراد کی بڑی اکثریت غلط سمجھتی ہو۔ جیسے جیسے اس عمل کو درست سمجھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اس عمل کی معاشرے میں قبولیت بڑھتی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت آتا ہے جب وہی عمل جو معاشرے میں کبھی معیوب سمجھا جاتا تھا، قبولیت کا درجہ پا کر معاشرے میں رائج ہو جاتا ہے اور کلچر کا حصہ بن جاتا ہے۔ اسے کلچرل ٹرانسفارمیشن کہتے ہیں۔ یہ عمل اگرچہ سست ہوتا ہے لیکن معاشرتی روایات میں تبدیلی اسی سست رو عمل سے رونما ہوتی ہے۔اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی ذاتی نوعیت کی معلومات کو طلاق سے پہلے یا بعد میں افشا کریں تو ہمارے آج کے معاشرے میں ایسا کرنے والے کو بہت بری نظر سے دیکھا جاتا ہے، یعنی معیوب گردانا جاتا ہے۔ یہ سوچ ہمارے معاشرے میں مضبوطی کے ساتھ اس لیے رائج ہے کیونکہ ہماری عورتیں باحیا ہیں اور مرد با غیرت۔ طلاق ہو جانے کے باوجود کوئی عورت اپنی عزت سر بازار بیچ کر اپنے سابقہ خاوند کو رسوا نہیں کرتی اور کوئی مرد اپنے بچوں کی ماں کو ذلیل نہیں کرتا۔ سمجھدار لوگ خاموشی سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ ہمارا خوبصورت اور باوقار کلچر ہے۔