counter easy hit

ملکہ کوہسار یا سفید پوش ڈاکووں کا مسکن

ملکہ کوہسار مری قیام پاکستان سے پہلے سے ہی ایک تفریحی مقام طور پر جانا جاتا تھا۔ اس وقت کے انگریزحکمران میدانی علاقوں کی گرمی سے پریشان ہو کر کچھ دن سکون سے گزارنے یہاں آ جاتے تھے۔

پورے برصغیر میں چند ہی ایسے مقام تھے جو کہ پہنچ میں بھی تھے اور مشہور شہروں کے قریب بھی واقع تھے۔ ان میں شملہ، دارجلنگ، ہندوستان میں رہ گئے جبکہ مری اور زیارت پاکستان کے حصہ میں آئے۔

پاکستان بننے کے بعد ایک وقت تھا جب بھری گرمی میں بھی مری میں چند سیاح ہی نظر آتے تھے اور ان میں سے بھی زیادہ تر غیر ملکی باشندے ہوتے۔ 1980 تک مال روڈ پر چند ہوٹل تھے اور وہ بھی کافی مہنگے جن مین سرینا ہوٹل مری، مرحبا ہوٹل کافی مشہور تھے۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری کے پرڈیوسر خوبصورت مناظر کی تلاش میں اس مقام کا رخ کرتے تاکہ رومانٹک گانوں کو پکچرائز کیا جاسکے۔ یہ بھی غلط نہ ہوگا کہ اس مقام نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کے بڑھنے پھولنے میں بھی اہم رول ادا کیا کہ جب تک ایک آدھ گانا یہاں نہ فلمایا جاتا فلم کامیاب نہ ہوتی تھی، خاص طور پر اردو فلموں میں۔

اس دور میں زیادہ تر پاکستان کی نامور شخصیات، سیاست دان، مشہور دولت مند خاندان اور بڑے زمیندار ہی گرمیوں میں مری کا رخ کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ نے اپنی ذاتی رہائشیں بھی یہاں بنا رکھی تھیں۔

مقامی لوگوں کا رویہ بھی نہایت اچھا، بااخلاق اور دوستانہ ہوتا تھا۔ زیادہ تر ہوٹل مالکان صرف فیملی کو ہی کمرے دیتے تھے۔ جن سے زرا بھی اندیشہ ہوتا کہ وہ ہوٹل کا ماحول خراب کردیں گے انہیں ہوٹل کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جاتا۔ ان ہوٹلوں کے کمرے صاف ستھرے اور عملہ مہمان دارہوتا تھا۔ دراصل انگریز دور کا رکھ رکھائو ابھی اسی طرح چلا آ رہا تھا۔ ریستوران والوں کیلئے ہر گاہک وی آئی پی کی طرح ہوتا تھا۔ نرخ گو کہ کچھ مہنگے ضرور ہوتے لیکن جو عزت اپنے گاہک کو وہ دیتے تھے اس کے پیچھے یہ مہنگا پن چھپ جاتا تھا۔

سردیوں میں تو مری بالکل ویران ہوتا تھا۔ بہت کم لوگ برف باری دیکھنے یہاں آتے اوروہ بھی ایک یا دو دن سے زیادہ نہیں ٹھہرتے تھے۔ سردیوں میں کمروں کے ریٹ آدھے سے بھی کم رہ جاتے اور ہوٹل مالکان دعائیں کرتے تھے کہ برف باری ہو اور کوئی ان کے ہوٹل میں ٹھہرنے آئے۔

اس دور میں جو بھی مری جاتا وہ واپسی پر اپنے دوستوں رشتے داروں کے لئے ایک چھڑی، فر والی خرگوش کی کھال سے بنی لیڈیز جوتی، کچے اخروٹ اور بادام ضرور لے کر آتا تھا۔ یہ تحفے مری کی نشانی سمجھے جاتے تھے۔ مری سے خریدی گئی یہ چھڑیاں اب بھی کئی گھروں میں موجود ہوں گیں۔ مری کی مال روڈ پر ان چھڑیوں اور جوتوں کی چند ایک دکانیں ہی ہوا کرتی تھیں۔ یا پھر لیڈیز شال اور کچھ بچوں کے کھلونے کی دوکانیں ہوا کرتی تھیں جہاں جاپان اور سنگاپور کے بنے کھلونے ہی ملا کرتے تھے۔ میڈ ان چائنا کہیں نظر نہ آتا تھا۔

اس وقت تک عام آدم کا نہ تو رحجان اس طرف تھا اور نہ ہی معاشی حالات اس کے ایسے ہوتے تھے کہ وہ مری کا خرچہ برداشت کرسکے کیونکہ یہ وہ دور تھا جب مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا کمایا ہوا پیسہ نہیں آیا تھا اور نہ ہی کرپشن کے پیسے کی وہ ریل پیل تھی جو کہ آج ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔

اسی کی دہائی میں جب مڈل ایسٹ، یورپی ممالک اور کرپشن کے پیسے کی وجہ سے لوگوں کی معاشی حالت میں بہتری آئی اور پاکستانی فلموں، ٹی وی ڈراموں، رسائل جرائد اور دائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیوں نے عام آدمی کا دھیان مری کی طرف کیا تو ہر سال آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پہلے مری کا سیزن تین ماہ سے زیادہ نہ ہوتا، اب یہ پانچ ماہ تک پھیل گیا۔ پہلے پورے سیزن میں چند ہزار تک لوگ یہاں سیر تفریح کیلئے آتے تھے، اب یہ تعداد لاکھوں تک جا پہنچی۔ اس کے ساتھ ہی ہوٹل، شاپنگ مال ریستورانوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ ان کی کمائی بھی آسمانوں کو چھونے لگی اور ایک وقت یہ بھی آیا کہ مری کو پاکستان کی سونے کی چڑیا کہا جانے لگا۔

بڑے بڑے سرمایہ داروں نے یہاں ہوٹل، شاپنگ پلازے اور مارکیٹیں کھولنی شروع کر دیں۔ ایک وہ دور تھا کہ آپ مری کی مال روڈ پر اپنی ہریالی، درختوں اور ماحول کی وجہ سے کسی جنگل کا نظارہ دیتی تھی اوراب یہ ہوا کہ درخت کاٹ کر شاپنگ مال اور ہوٹلوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے لاہور کی پرانی انارکلی کے بازار میں پھر رہے ہیں۔ پھول پودوں کی خشبو کی جگہ ہوٹلوں کی غلاظت کی بدبو نے لے لی۔ مری کا موسم بھی اب وہ نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ اس وقت آپ مئی جون میں بھی جاتے تو سویٹر ساتھ لیکر جاتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ مال روڈ کے ہر ریستوران میں پنکھے لگے ہوئے ہیں اور کچھ اچھے ریستوران اور ہوٹلوں میں اے سی تک لگا رکھے ہیں۔

لیکن ماحولیاتی آلودگی درختوں کی کٹائی اور سبزے کے باعث جو موسمی تبدیلی آئی وہ اپنی جگہ لیکن جس چیز نے سیاحوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ مری والوں کا ان سیاحوں کو دونوں ہاتھون سے لوٹنا اور ان کا انتہائی گھٹیا اور نامناسب رویہ تھا۔

سب سے پہلے ذرا ریستوران اور ہوٹل مالکان کا ذکر ہو جائے۔ ان کیلئے ہر نیا آنے والا اس وقت تک قابلِ عزت ہوتا جب تک وہ کھانے کا ارٓڈر نہ دے دے یا کمرہ بکنگ کا ایڈوانس نہ دے دے۔ جیسے ہی اس نے یہ دو کام کردیے، بس پھر وہ ان کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔

کھانا کھانے کے بعد جیسے ہی وہ بل دیکھتا ہے تو ششدر رہ جاتا ہے۔ ایک دفعہ بل کو اور دوسری طرف بل لانے والے کو دیکھتا ہے۔ معصوم گاہک پہلی بات یہ کرتا ہے کہ کہیں یہ بل تم غلطی سے تو نہیں لے آئے۔ ہوسکتا ہے کسی اور کا ہو لیکن بل لانے والا ذرا سخت الفاظ میں جوب دیتا ہے کہ جناب یہ وہی ہے جو آپ نے آرڈر کروایا تھا۔ غور سے دیکھئے۔ گاہک غور سے دیکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ آرڈر تو وہی ہے لیکن ریٹ ہیں کہ انتہائی زیادہ۔ سلاد سے لیکر چکن کڑاہی پر چار گنا ریٹ لگایا گیا ہے۔ گاہک کو بحث کے موڈ میں دیکھ کر مالک اور بیرے اسے گھورنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی بھی سیاح اپنی جان چھڑانے میں ہی آفیت سمجھتا ہے۔ کیونکہ وہ مری ریلکس ہونے آتا ہے نہ کہ لڑنے۔ اس لئے بادل ناخواستہ بل دے کر اپنی جان چھڑاتا ہے۔

کسی ہوٹل کے کمرے میں بکنگ کے بعد جیسے ہی وہ اپنا سامان کھولتا ہے اور چند منٹ کیلئے سستانے لیٹتا ہے تو اسے ایسی بو سونگھنے کو ملتی ہے جو کہ شاید مچھلی منڈی میں بھی نہ ہو۔ یہ بو اس گدے، تکیے، فرش پر بچھے قالین اور بسترسے آ رہی ہوتی ہے جسے دھئے ہوئے یا دھوپ میں ڈالے شاید برسوں بیت گئے ہوں۔

ہوٹل مالکان کمروں پر کمرے بناتے جاتے ہیں لیکن پہاڑی علاقہ کی سِل یا نمی کو ختم کرنے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں کرتے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس پر زیادہ خرچہ آتا ہے۔ ایسے بھی ہوٹل کے کمرے ہیں جہاں سے پانی تک رِستا ہوا نظر آتا ہے۔ پہلی نظر میں ہوٹل کا کمرے دیکھنے والے اس بات کو نوٹ نہیں کرتے لیکن جیسے ہی کچھ وقت گزرتا ہے انہیں یہ خرابیاں نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں لیکن وہ ایڈوانس دے چکے ہوتے ہیں جس کی واپسی ناممکن ہوتی ہے لہٰذا صبر شکر کرکے دو چارروز گزار لیتے ہیں۔

غسل خانہ جس میں ٹھنڈے گرم پانی کا وعدہ کیا جاتا ہے، اگر ٹھنڈا پانی بھی مل جائے تو غنیمت ورنہ ایک بالٹی سے کام چلانے کو کہا جاتا ہے۔ ایک عام سے درمیانہ درجے کے ہوٹل کا کمرہ بھی سیزن میں سات آٹھ ہزار سے کم کا نہیں ہوتا۔ عید اور 14 اگست پر تو جو منہ سے مانگا جائے وہی گاہک کو دینا پڑتا ہے ورنہ رات باہر گزارنی پڑتی ہے۔

مری کے ہوٹل مالکان نے پیسے بنانے اور بلیک میلنگ کا ایک اور طریقہ یہ بھی اختیار کرلیا ہے وہ یہ کہ جب بھی کوئی نیا شادی شدہ جوڑا مری جاتا ہے تو پہلے تو بڑی عزت سے اسے کمرہ دے دیتے ہیں لیکن پھر کچھ ہی دیر بعد آکرنکاح نامہ دکھانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ اب ہر کوئی اپنے ساتھ نکاح نامہ تو لے کر نہیں پھرتا۔ مجبوراً کچھ لے دے کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔

مری کی مال روڈ پر چلے جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ گویا ایک لوٹ مار کا بازار لگا ہوا ہے۔ سگریٹ پان سے لیکر کافی، چائے اور چپس کے پیکٹ تک کا تین سے چار گُنا زیادہ وصول کیا جاتا ہے۔ ٹھیلے، گھوڑسواری، پرائیویٹ چئیر لفٹ اور بچوں کے جھولے کے ریٹ کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ دام وصول کرلیتا ہے۔ غرض آج کی ملکہ کوہسار سفید کپڑوں میں ملوث بے نقاب ڈاکووں کا مسکن زیادہ نظر آتا ہے، جو دونوں ہاتھوں سے ملک کے ہر حصہ سے آنے والے سیاحوں کو سرعام لوٹتے ہیں اور کوئی حکومتی ادارہ ان کو پوچھنے کی ضرورت گوارہ نہیں کرتا۔