counter easy hit

شب سمور گزشت و شب تنور گزشت

Cold Night

Cold Night

تحریر: نعمان قادر مصطفائی
ایک خانہ بدوش درویش سردیوں کی رات کے کسی پہر کسی ٹھکانے کی تلاش میں تھا اسی تلاش کے دوران اس نے دیکھا کہ کچھ دور روشنی ہو رہی ہے وہ اسی طرف خوشی خوشی چل پڑا اور دیکھا شکاریوں نے خیمے لگا رکھے ہیں اور ان میں آرام کر رہے ہیں اس نے ایک خیمے کا پردہ اُٹھا کر اندر جھا نکا تو اندر سے اسے جھڑکا گیا کہ تم کون ہو ؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں سے بھا گ جائو ، پھر اس نے جس خیمے میں بھی جھا نکا اسے جھڑکیاں ملیں۔۔۔۔۔بالآخر وہ شکا ریوں کے سردار کے خیمے میں جا گھسا اور سوچا کہ بڑے لوگ کھلے دل کے مالک ہوتے ہیں لیکن گرم سمور کی کھال میں لپٹا ہوا یہ رئیس بھی سب سے زیادہ سخت نکلا اور اسے ملازموں کے ذریعے باہر نکلوا دیا۔

یہ سب دیکھ کر اس نے شکاریوں کے تنور کو اپنے قریب دیکھا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے تنور کے پاس لیٹ گیا اور گرم تنور کی حرارت سے بے فکر ہو کر نیند کے مزے لینے لگا کوئی اسے یہاں سے اُٹھا نے والا نہیں تھا رات کو سردی بھی لگی لیکن اس نے صبر کیا اور صبح ہو نے پر اَنگڑائی لے کر اُٹھا اور اپنی مادری زبان جو کہ فارسی تھی میں کہا کہ ”شب سمور گزشت و شب تنور گزشت ” کہ سمور کی گرم کھال اوڑھ کر سونے والوں کی رات بھی گزر گئی اور تنور کی گرمی کے پاس پناہ لینے والوں کی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقتدار کی غلام گردشوں میں مست الست رہنے والوں ،اپنے فارم ہائوسوں ، سنگِ مر مر سے آراستہ و پیراستہ کئی کنال پر مشتمل محلات میں مخملیں بستروں پر سونے والوں اور ناہموار کھدری اینٹوں سے بنے تکیے اپنے سروں کے نیچے رکھ کر کچے فرش پر سونے والوں کے خواب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔خوابوں کی دنیا سب کی ایک جیسی ہی ہے قدرت نے عالم خواب کو سب کی مشترک جا گیر بنا دیا ہے۔۔۔۔۔۔

ہوا کی طرح خواب بھی قدرت کا ایک انعام ہی ہیں جو کسی کی دولت اور مرتبے کے محتاج نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔2014ء کا سورج بھی قوم کو دکھوں ،تکلیفوں ،مصائب ،پریشانیوں اور رنج و غم کے ”تحائف”دے کرٹھیک 30دن بعدغروب ہو جا ئے گایقینا2014ء پا کستانی قوم کے لیے بھاری ثابت ہوا، دہشت گردی ، بے روزگاری ، بے امنی عروج پر رہی ،کشور حسین ، مرکزِ یقین اور پاک سر زمین پر جنم لینے والے غریب نے جو سہانے خواب اپنے غربت زدہ آنگن میں سجائے تھے وہ محض خواب ہی رہے ،محنت کش اور مزدور سال کے آغاز سے لے کر اختتام تک شہر کے چوک چوراہوں میں جون کی تپتی اور جھلستی آہوں اور دسمبر کی ٹھٹھرتی چھائوں میں ہاتھ میں تیسی اور کانٹی پکڑے ”دیہاڑی ” کے انتظار میںکھڑا ہے ،غریب کے بچے آج بھی روٹی کے دو لقموں کو ترس رہے ہیں ،غریب کی بیٹی آج بھی ”بابل کی دہلیز ” پر بیٹھی اپنے ہاتھ پیلے ہونے کا انتظار کر رہی ہے،غریب کا بچہ آج بھی غربت کے باعث سکول کی دہلیز پر نہیں جا سکا ،لوگ غربت کی وجہ سے خود کشیاں اور خود سوزیاں کرتے رہے ، کتنے ”اللہ دِتے ” اور کتنی ”بُشرائیں ”بہتر مستقبل کی آس میں روزانہ مرتے رہے ، سال کے مختلف مہینوں میں نا معلوم دہشت گردوں نے مختلف شہروں ، علاقوں کی مساجد ، امام بارگاہوں اور مزارات کو نشانہ بنا یا ،گزشتہ سے پیوستہ سال سیاستدانوں کی عہد شکنیوں ، بدعنوانیوں ،خر مستیوں کے قصے زبانِ زد عام رہے جاتے جاتے گزرا ہوا سال قوم کو ”راہنمایانِ قوم ” کا اصلی چہرہ بھی دکھا رہا ہے کہ جس طریقے سے پارلیمنٹ میں ”اصحاب ِ نون ” نے ”اصحابِ انقلاب ” اور ”اصحابِ کپتان ” پر طعن و تشنیع کے تیر اور خنجر چلائے اور اُن پر غلیظ گا لیوں کی بو چھاڑ کی جن کو سن کر قوم کی ما ئوں بہنوں کے سرشرم سے جھک گئے کہ یہ ہیں وہ ”شرافت ” کے علمبردار اور راہنمایان ِ قوم جنہوں نے چادر اور چار دیواری کے اندر محفوظ مائوں ، بہنوں کی عصمتوں کو تار تار کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی۔

پارلیمنٹ میں بیٹھے افراد قوم کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اگر قوم کے محافظ ہی قوم کی مائوں بہنوں کی چادروں کے بخیے ادھیڑنا شروع کر دیں تو پھر عام آدمی کا کیا حال ہو گا ؟اس لیے تو کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ سارا حمام ہی ننگا ہے ،یہ تو اللہ بھلا کرے الیکٹرانک میڈیا والوں کا جنہوں نے اپنی قوم کوان کے چہیتے اور لاڈلے” لیڈرز” کے اصلی چہرے متعارف کرا نے میں اہم کر دار ادا کیا ہے سیاست کے اس کھلواڑے میں بڑے بڑے سیاسی جغادریوں اور مذہبی مداریوں کو پل بھر میں آنکھیں پھیرتے ہو ئے دیکھا گیاہے ورنہ ہوتا یہ آیا ہے کہ اگر کسی ”لیڈر ” نے کوئی بات کی اور جس پر قوم نے شور بر پا کر دیا اگلے دن قوم کے خیر خواہ ”لیڈر ” کی تردید شائع ہو جا تی تھی اب صورتحال یکسر مختلف ہے اگر کوئی ”لیڈر ” اخلاقیات سے عاری اور جھوٹ کے پردے میں لپٹی کوئی بات کرتا ہے تو اسی وقت چینلز کے کیمرے کی آنکھ ان ”ملفوظات کثیفہ” اور ”بکواسیات ِ غلیظہ ” کو محفوظ کر لیتی ہے اور وقت آنے پر سب کچھ آشکار ہو جاتا ہے نئے سال کی ”خوشی” میں بہت سارے منچلے سڑکوں پر رقص کرتے نظر آئیں گے حالانکہ2014ء کی آمد کی خوشی بھی اسی طرح منائی گئی تھی مگرہوا کیا؟ 2014ء کا گزرتاہردن ”50ہزار سال ” کا دن اور ڈھلتی ہرشام غریبوں کے لیے ”شامِ غریباں ” کا پیغام لے کر آئی ،2014ء ہو یا 2090ء اس گلے سڑے ، بد بودارنظام میں طبقہ امراء کے لیے ہر روز ”روزِ عید ” اور ہر شب ”شبِ برات ” ہے گزرے ہوئے کل میں بھی ان کے وارے نیارے تھے ،آج بھی وہ خوشحال ہیں اور آنے والے کل میں بھی ان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہو گا،غریب ، محنت کش ، دیہاڑی دارمزدور کل بھی جاگیر دار اور سر مایہ دار کا محکوم تھا آج بھی وہ چکی کے دو پا ٹوں کی طرح ”جاگیر دار اور سرمایہ دار ” کے در میان پس رہا ہے آئندہ بھی مو جودہ ظالمانہ نظام کے ہو تے ہو ئے ذلت و رسوائی اس کا مقدر ہے اس نظام میں دن پھرتے ہیں فقط ”زرداروں ”کے اور وزیروں کے ۔۔۔۔۔غریب بیچارے نے تازی روٹی روزی کما کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنا ہے غریب بیچارے پر تو ہر لحظہ ”لگ گئی تو روزی نہ لگی تو روزہ ” والی کیفیت طاری رہتی ہے آج بھی لاکھوں ایسے خاندان ہیں جن کے گھر میں صرف ایک وقت چو لہا جلتا ہے اور دوسری طرف ہمارے غریب پر ور وزیر اعظم کے ”ایوان ِ وزیر اعظم ” کا ما ہانہ صرف کچن کا خرچہ کروڑوں میں ہے اس شاہانہ ماہانہ کچن پر اٹھنے والے اخراجات سے ہزاروں بابل کی دہلیز پر بیٹھی غریب بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کیے جا سکتے ہیں ،حالانکہ پیٹ تو فقط دو روٹیوں سے بھی بھر جا تا ہے اور سوٹ کے دو جوڑوں سے بھی گزارا ہو سکتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہمارے ہمسایہ برادر اسلامی ملک ایران کے جسمانی طور پر نحیف مگر کردار اور افکار کے لحاظ سے نظیف اور لطیف سابق صدر احمدی نژاد کی تھی جس کے زیر ِ استعمال 78ء ماڈل کار ہے اور پہننے کے لیے صرف 2عددتھری پیس سوٹ ہیں۔

دوران ِ صدارت کھا نا ٹفن میں اس کے گھر سے تیار ہو کر آتا رہاہے سر کاری خزانے میں سے ایک پائی بھی استعمال کرنا مضبوط کردار کے حامل صدر قطعاََ حرام تصور کرتے تھے اب بھی موجودہ صدر بھی اُنہی کی روش پر گامزن ہے مگر کشور حسین ،پاک سر زمین اسلامی جمہو ریہ پاکستان میں ہمارے ”زردار ”اور سادگی کادعویٰ کرنے والے ”سُوٹِڈ بُوٹِڈ”حکمرانوں کے معدے اتنے سخت ہیں کہ ”لکڑ بھی ہضم اور پتھر بھی ہضم” یونان کے مشہور مجذوب فلسفی دیو جانس قلبی بہت بھلے مانس انسان تھے اور آپ کے پاس اکثر و بیشتر مشہور سپہ سالار سکندر اعظم کچھ سیکھنے کے لیے آیا کرتا تھا ایک دن دیو جانس قلبی نے سکندر اعظم سے کہا کہ میں آپ کی دعوت کرنا چا ہتاہوں آپ مع لشکر میری کٹیا میں تشریف لائیں سکندر اعظم وقت مقررہ پر دیو جانس قلبی کے پاس حاضر ہوا ،مجذوب نے اپنے خادمین سے کہا کہ میرے اور سکندر اعظم کے لیے الگ دستر خواں سجا یا جائے اور لشکر کے لیے الگ اہتمام کیا جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ لشکر کے لیے انواع و اقسام کے کھانے چُن دیئے جائیں اور ہمارے دستر خواں پرصرف ہیرے اورجواہرات چُن دیئے جائیں احکامات کے مطا بق خادمین نے علیحدہ علیحدہ دستر خواں چُن دیئے اب جب کھانے کے لیے سکندر اعظم اور دیو جانس کلبی دستر خواں پر پہنچے اور انتظار کرنے لگے کہ کب انواع و اقسام کے کھا نے دستر خواں پر سجائے جاتے ہیں ؟بھوک کی شدت جب بڑھنے لگی تو سپہ سالار سکندر اعظم بھوک بر داشت نہ کرتے ہوئے بول پڑا کہ کھا نا کب لگے گا ؟تو اس پر دیو جانس کلبی نے کہا کہ کھانا آپ کے سامنے پڑا ہے اور آپ کے پرو ٹول کو مدِنظر رکھتے ہو ئے عوام الناس کے لیے عام کھانا اور آپ کے لیے ہیرے اور جواہرات منگوائے گئے ہیں آپ شروع کیجئے !اس پر وہ بولاکہ یہ ہیرے اور جواہرات انسانوں کے کھا نے کی چیز تو نہیں ہے سکندر اعظم کے اس جملے پریونان کا فلسفی بول پڑا کہ ”کھانی تو انسان نے صرف دو روٹیاں ہی ہیں صرف دو روٹیوں کی خاطر آپ نے پوری دنیا میں اودھم مچا رکھا ہے میں تو سمجھ رہا تھا کہ آپ اب عام انسانوں والا کھانا نہیں بلکہ ہیرے اور جواہرات آپ کی خوراک ہوں گے ”یو نانی فلسفی کے اس ایک جملے نے سکندا اعظم کی بند آنکھیں کھو لنے میں اہم کردار ادا کیا اور مرتے وقت سکندا اعظم کو کہنا پڑا کہ ”میرے دونوں ہاتھ میرے کفن سے باہر نکال دینا تاکہ غافل لو گوں کو پتہ چل سکے کہ دیکھو آج سکندر اعظم بھی اس بھری دنیا سے خالی ہاتھ واپس جا رہا ہے ” کاش ہمارے حکمرانوں کو بھی کو ئی دیو جانس کلبی میسر آجائے جو ایک ہی نکتے میں ساری بات سمجھا دے اور ہمارے حکمران دنیا کی حقیقت کو سمجھتے ہو ئے محض اپنی بھری تجوریوں کو ہی نہ مزید بھریں بلکہ مہنگائی ، بے روز گاری اور بد امنی کی وجہ سے پریشان حال غریب عوام کا بھی کچھ خیال کر یںاور یہ تصور ان کے ذہنوں میں آجائے کہ ان کے آبائو اجداد نے لوٹ مار کر کے اور انگریزوں کی راج غلامی کر کے جو دولت کمائی تھی وہ ادھر ہی چھوڑ گئے ہیںہم نے بھی مکاری اورعیاری کی وجہ سے لوٹی گئی دولت کو ادھر ہی چھوڑ جانا ہے اور کھانی صرف 2 روٹیاں ہی ہیں اگر وہ بھی نصیب ہو جائیں ،کاش ایسا ہو جائے ! چلتے چلتے کچھ اشعار سال کے اختتام کے حوالے سے جو مجھے ایڈیٹر کونسل آف جموں و کشمیر کے چیئر مین ذاکر خواجہ نے ایس ایم ایس کیے ہیں ملاحظہ کیجئے۔

کوئی ہار گیا کوئی جیت گیا
یہ سال بھی آخر بیت گیا
کبھی سپنے سجائے آنکھوں میں
کبھی بیت گئے پل باتوں میں
کچھ تلخ سے لمحات بھی تھے
کچھ حادثے اور صدمات بھی تھے
پر اب کے برس اے دوست میرے
میں نے رب سے دُعا یہ مانگی ہے
کوئی پل نہ تیرا اُدا س گزرے
کوئی روگ نہ تجھ کو اُداس کرے

اللہ تعالیٰ 2015ء میں پوری اُمت مسلمہ کے لیے ڈھیر ساری خوشیاں اور خوشحالیاں لے کر آئے (آمین)

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر: نعمان قادر مصطفائی
03314403420