counter easy hit

سیاست دانوں کی انگارے اگلتی زبانیں

اگر ہم پاکستان میں جاری انتخابی مہم پر غور کریں تو ایک نہایت دلچسپ مگر اسی قدر افسوس ناک صورت حال ہمارے سامنے آتی ہے۔

پاکستانی عوام کو اس مرتبہ کے انتخابات میں جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ وہ آخر کار کیسے دوسروں کے مقابلے میں نسبتاً کم برے راہنما کا انتخاب کریں۔

ہم سب پچھلے چار برس سے مشاہدہ کرتے آئے ہیں کہ عمران خان نے مسلم لیگ نواز کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیے رکھا۔ ان کی زبان کی تلخی اور حرارت مسلم لیگ نواز کے خلاف عروج پر ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ عمران خان ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کی سیاست کو تلخی کی جانب دکھیلا ہے؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے پانچ سال پیچھے چلتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے اختتام پر 2013 کے انتخابات کا معرکہ درپیش تھا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف میدان میں تھیں۔ اس وقت جو زبان انگارے اگل رہی تھی وہ شہباز شریف کی زبان تھی۔ شہباز شریف پیپلز پارٹی کی حکومت کو علی بابا اور چالیس چوروں کا ٹولہ قرار دیتے رہے اور آصف زرداری کو زربابا کا نام دیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کو الٹا لٹکا کر اور ان کا پیٹ پھاڑ کر ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت نکلوانے اور قوم کے قدموں میں نچھاور کر دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ ساتھ ساتھ ہی ساتھ ان کے مستقبل کے ارادوں میں انتخابات میں کامیابی کے بعد آصف زرداری کو کراچی، لاور، پشاور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھیسٹنا بھی شامل تھا۔ شہباز شریف کے علاوہ اس وقت مسلم لیگ نواز کے دیگر راہنماؤں بشمول نواز شریف بھی پیپلز پارٹی کے خلاف زبانوں کی دھاریں تیز کیے حملہ آور ہو رہے تھے۔ اسی ہنگام انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ نواز انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔

عمران خان ان انتخابات میں کامیابی کی آس لگائے بیٹھے تھے مگر انتخابات میں شکست سے انہیں دھچکا لگا۔ چناچہ انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور شہباز شریف کی طرح اپنی زبان کو بے لگام چھوڑ دیا۔ پھر وہ دھرنے میں کیے گئے بے شمار خطابات ہوں یا تحریک انصاف کے جلسے، ہر موقعے پر عمران خان کی زبان کی کاٹ اور زہر بڑھتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ عمران خان بدزبانی کی مثال کے طور پر سامنے آگئے۔

بدزبانی کے میدان میں مسلم لیگ نواز بھی اپنے شاہ سوار رکھتی ہے چناچہ انہوں نے بھی اپنی لگامیں ڈھیلی کیں اور پھر دانیال عزیز، طلال چوہدری اور اسی قبیل کے دوسرے لوگ دیکھتے ہی دیکھتے “شائستہ کلامی” میں ملکہ حاصل کر گئے۔

بدزبانی کے اس ورلڈ کپ میں تحریک انصاف کے دیگر راہنما بھی شامل ہو گئے اور پھر تپش بڑھتی چلی گئی۔ گاہے بگاہے پیپلز پارٹی کے کچھ راہنما بھی زبان خنجر کا بے موقع استعمال کرتے نظر آئے۔

پھر خادم رضوی منظر عام پر آئے اور چھا گئے۔ ان کی سریلی آواز اور پرسوز لحن میں ادا کی گئی گالیاں قوم کے دلوں (دلوں کو زیر لگا کر پڑھا جائے) کو گدگدا گئیں اور خادم رضوی عمران خان کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے مسند القابات پر جا براجے۔

اندھی عقیدتوں اور نفرتوں میں بٹی ہوئی قوم اپنے اپنے پسندیدہ سیاسی راہنما کے افکار عالیہ اختیار کرتی چلی گئی اور ایک واضح دڑاڑ قوم میں پیدا ہو گئی۔ اور اب یہ حال ہے کہ کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔

ان حالات میں 2018 کے انتخابات کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ جس حساب سیاست دانوں کی انگارے اگلتی زبانوں سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے گئے اور کردار کشی کی گئی اس حساب سے اب قوم کے پاس صرف بدعنوان، بدکردار، شدت پسند اور غدار امیدوار ہی بچے ہیں۔

قوم کو کرنا صرف یہ ہے کہ 25 جولائی کو انہی میں سے کوئی نسبتاً کم بدعنوان، کم بدکردار، کم شدت پسند یا کم غدار چن لے اور پھر اگلے پانچ سال اسی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے کمر کس لے۔