counter easy hit

سیاسی جنگ: نواز شریف، زرداری تعاون ممکن بن سکتا ہے؟

دونوں جماعتوں ن لیگ اور پی پی میں تعاون کیلئے تحریک انصاف کا سیاسی دباؤ بھی ہے سینیٹ انتخابات کے بعد قومی انتخابات سے پہلے غیر اعلانیہ مفاہمت خارج ازامکان نہیں۔

دونوں جماعتوں ن لیگ اور پی پی میں تعاون کیلئے تحریک انصاف کا سیاسی دباؤ بھی ہے سینیٹ انتخابات کے بعد قومی انتخابات سے پہلے غیر اعلانیہ مفاہمت خارج ازامکان نہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے پیپلز پارٹی سے غیر مشروط ہاتھ ملانے کی پیشکش اور آج بھی میثاق جمہوریت پر قائم رہنے کا اعلان یہ ظاہر کر رہا ہے کہ نوازشریف ایک بڑی سیاسی جنگ کی تیاری میں ہیں جس میں وہ سویلین بالادستی، ووٹ کے تقدس اور آئین کی پاسداری کو بنیاد بنا کر آگے چلنا چاہتے ہیں اور یہی وہ مشترکہ نکات ہیں جو آنے والے وقت میں ایک بار پھر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان مشترکہ جدوجہد کا راستہ کھول سکتے ہیں کیا نوازشریف اور آصف زرداری کے درمیان دوبارہ تعاون ممکن ہو سکتا ہے کیا آنے والے انتخابات میں دونوں جماعتوں کے درمیان غیر اعلانیہ مفاہمت کا راستہ کھل رہا ہے اور ن لیگ کی قیادت اور حکومت کو درپیش مشکلات میں کیا پیپلز پارٹی کی نئی قیادت ان کا ساتھ دے سکتی ہے یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ آنے والے سیاسی حالات میں سیاسی جماعتوں کی ترجیحات اور مفادات کا پتہ چل سکے جہاں تک نوازشریف اور آصف علی زرداری کے درمیان دوبارہ تعاون کا سوال ہے تو پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ تعلقات میں ڈیڈ لاک کہاں سے آیا اور اس میں قصور کس کا تھا۔

سابق صدر آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سندھ میں قانون کا شکنجہ کسا جانے لگا تو سابق صدرنے پشاور کی ایک تقریب میں اسٹیبلشمنٹ میں اپنے مخالفین کو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کو تین سال بعد چلے جانا ہے ہمیں یہیں رہنا ہے اس کے ساتھ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو للکارتے ہوئے تین مرتبہ ہوشیار ہوشیار ہوشیار کی گردان کی تھی دراصل یہ وہ نکتہ تھا جس کے بعد آصف علی زرداری کی پارٹی اور ان کے تعلقات اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خراب ترین سطح پر چلے گئے اور پھر کراچی میں جاری رینجرز آپریشن کا رُخ بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ کرپشن، زمینوں پر قبضے اور دیگر سیاسی نوعیت کے معاملات کی طرف ہو گیا وہ دور بھی تھا جب پیپلز پارٹی کے سیاسی گھر سندھ میں ان کے لیے زمین تنگ کی جا رہی تھی اور دوسری طرف زرداری لاکھ کوششوں کے باوجود وفاق میں برسراقتدار مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ وزیراعظم نوازشریف سے طے شدہ ملاقات نہ کر سکے ،دراصل اسٹیبلشمنٹ کے خلاف یہ دوسرا موقع تھا جب نوازشریف نے بوجوہ انہیں دھوکہ دیا اور میمو گیٹ کے بعد اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کے وقت تک آصف علی زرداری کو تنہا چھوڑ کر تنہا سیاسی سفر پر نکل گئے اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا ٹارگٹ آصف علی زرداری اور ان کی جماعت تھی اور وفاق وزارت داخلہ کے ذریعہ کراچی میں رینجرز اور نیب کو خصوصی اختیارات دیتا رہا پیپلز پارٹی چوہدری نثار کے کردار پر چیختی چلاتی رہی اندر سے وہ بھی اس کیفیت کو جانتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اس سخت رویے میں میاں نوازشریف کی تائید بھی کسی حد تک شامل ہے۔

پاناما لیکس کے بعد ملک کے اندر جاری سیاسی بحران میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد ایک نیا موڑ مڑ چکا ہے اس موڑ میں سیاست اور طاقت کے کھلاڑی بدل چکے ہیں اب اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کے درمیان ایک سخت تناؤ کی کیفیت ہے اور دوسری جانب پیپلز پارٹی لائن کے دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے لیکن حالات اور واقعات کا رُخ یہ بتا رہا ہے کہ احتساب کا یہ عمل نوازشریف ان کی جماعت کے دباؤ کے باعث صرف ان تک محدود نہیں رہے گا ،پیپلز پارٹی کی طویل سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو وہ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن دونوں ہی سے زخم خوردہ ہے لہذا ایسی سنجیدہ سیاسی سوچ کی حامل جماعت سے یہ امید ممکن نہیں کہ وہ ووٹ کے تقدس آئین کی بالادستی اور سول ملٹری کے عدم توازن کے معرکے میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی رہے۔

دوسری طرف ان دونوں جماعتوں کو اکھٹا کرنے کے لیے ملک میں ایک تیسری بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کا دباؤ بھی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر ہے اور عوام میں مقبولیت رکھتی ہے لہذا اب دونوں جماعتیں اپنے اختلافات پر ڈٹی رہیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف انتخابی میدان میں ان دونوں جماعتوں کی لڑائی کا فائدہ اٹھا کر پارلیمانی سیاست کا نقشہ ہی بدل دے لہذا شاید ابھی فوری طور پر نوازشریف اور آصف علی زرداری ہاتھ نہ ملائیں مگر سینیٹ کے انتخابات کے بعد اور قومی انتخابات سے پہلے ان دونوں جماعتوں میں قربتیں لازمی طور پر بڑھ سکتی ہیں شاید دونوں جماعتیں آئندہ انتخابات میں اتحادی تو نہیں ہوں گی البتہ غیر اعلانیہ مفاہمت کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی سے چند سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کر لی جائے جس کے اشارے سیاسی حلقوں سے مل رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے سے فاصلے پر کھڑی دونوں جماعتوں اور قیادتوں میں فوری طور پر کوئی بڑی اور واضح مفاہمت نہ ہو سکے مگر ایسا وقت آ سکتا ہے کہ سیاسی چپقلش اور دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی درجہ حرارت کم ہو جائے اور آج ایک دوسرے کے منہ نہ دیکھنے والے کل کلاں آپس میں بغلگیر ہوتے نظر آئیں اور ملک کی سیاسی تاریخ اس طرح کے مناظرسے بھری پڑی ہے۔