counter easy hit

پختون دہشتگرد یا متاثرینِ دہشتگردی؟

دہشتگردی کی تازہ ترین لہر، جس نے ماہِ فروری میں اپنا سر اٹھایا ہے، نے چاروں صوبوں کے عوام کو اپنا نشانہ بنایا ہے۔ سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، درجنوں افراد زخمی ہیں، ہمارا ملک ایک بار پھر لہو لہو ہے، مگر ہمارا ردِعمل اتحاد کا نہیں، اختلاف کا ہے۔ہمارے ملک میں افغان مہاجرین کے خلاف ویسے بھی جذبات عام طور پر پائے جاتے ہیں، مگر اب کی بار نزلہ کھل کر پختونوں کے خلاف گر رہا ہے۔ ایک نسلی و لسانی گروہ کے خلاف نفرت کا یہ اظہار قابلِ مذمت تو ہے ہی، مگر خاص طور پر اس لیے زیادہ قابلِ مذمت ہے کیوں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ سے پاکستان بھر میں سب سے زیادہ پختون متاثر ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں، اور دہشتگرد ہونے کا الزام بھی انہیں ہی دیا جا رہا ہے۔سوشل میڈیا پر چند دن قبل ایسے اشتہار گردش کر رہے تھے جن میں عوام کو پختون چھابڑی والوں سے ہوشیار رہنے کا کہا گیا تھا۔ کوئی بم دھماکہ کرتا ہے اور معصوموں کو مارتا ہے تب بھی کہا جاتا ہے کہ کوئی پختون ہی ہوگا اور قبائلی علاقوں سے ہی اس کا تعلق ہوگا۔

ایسے الزام عائد کرنے والے افراد یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخواہ وہ علاقہ ہے جس نے باقی پاکستان سے اگر زیادہ نہیں، تو اس سے کم بھی کشت و خون نہیں دیکھا ہے۔صرف یہی نہیں، قبائلی علاقوں اور سوات میں ہونے والے تمام آپریشنز کے دوران یہ پختون ہی تھے جنہوں نے پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں سے مکمل تعاون کرتے ہوئے دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے مشکلات برداشت کیں اور کئی سالوں تک اپنے گھر بار چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں بھی کھائیں۔آج بھی کئی قبائلی پختون خاندان اپنے گھروں سے محروم ہیں، کیمپوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں، اور سینکڑوں خاندان ایسے ہیں جنہوں نے اس آپریشن کی قیمت اپنی فصلوں، کاروبار، دکانوں اور بازاروں کی تباہی میں ادا کی ہے، مگر پاکستان سے وفاداری ختم تو کیا کم بھی نہیں ہونے دی۔

پڑھیے: دہشت گردی کی کوئی قومیت نہیں

مگر اس کے باوجود کبھی دہشتگردی کا الزام لگا کر پختونوں کو تنگ کیا جاتا ہے، تو کبھی سہولت کار کا، اور کبھی انتہاپسندی کا۔ حال ہی میں ملک کے کونے کونے میں ہونے والی دہشتگردی کے بعد اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور سمیت پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں میں کئی سالوں سے مقیم پختونوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ جہاں بھی کسی بھی سیکیورٹی چیک پوائنٹ پر شناختی کارڈز کی چیکنگ کے دوران اگر کوئی قبائلی یا خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والا شخص سامنے آتا ہے تو اس بے چارے کو روک کر اس کی مکمل تلاشی لی جاتی ہے اور ان سے مختلف قسم کے سوالات الگ پوچھے جاتے ہیں۔چند سال قبل میں اسلام آباد میں ایک روزنامے سے بطور سپریم کورٹ رپورٹر منسلک تھا۔ این آر او کیس میں اُس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان کو سپریم کورٹ نے طلب کر رکھا تھا۔ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ سے خصوصی پاسز جاری ہوئے تھے۔ میں نے اپنے چیف ایڈیٹر کے لیے بھی خصوصی کارڈ بنوا لیا تھا۔ہم جیسے ہی سپریم کورٹ میں داخل ہوئے تو سیکیورٹی اہلکاروں نے میری تلاشی لی اور چیف ایڈیٹر کو بغیر تلاشی اندر جانے دیا۔ ہم دو چار قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ سیکیورٹی انچارج نے ہمارے چیف ایڈیٹر کو نام سے پکارا۔انہوں نے تلاشی دینے کے لیے ہاتھ اٹھائے تو سیکیورٹی انچارج نے چیف ایڈیٹر سے کہا کہ سر میں آپ کا بڑا فین ہوں، میں کیسے آپ کی تلاشی لے سکتا ہوں؟

ان دنوں میں روز سپریم کورٹ جاتا تھا، مگر میری روز تلاشی لی جاتی تھی۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو سیکیورٹی اداروں سے تعاون نہیں کرتے لیکن ان کو کوئی کچھ بھی نہیں کہتا اور ہم پختون سیکیورٹی اہلکاروں سے مکمل تعاون کرکے بھی خوار ہو رہے ہیں۔ آخر کیوں صرف پختونوں کو ہی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہ متعصبانہ رویہ کب تک چلتا رہے گا؟پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات سے جو بھی اب تک محفوظ رہا ہے وہ خوش قسمت ٹھہرا ہے۔ بدقسمت تو وہ ہیں جن کے پیارے بے نام موت مارے گئے لیکن ان کے لواحقین کو بعد میں کسی نے پوچھا بھی نہیں۔ ان میں سے ایک خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کی تحصیل کاٹلنگ کے علاقے جمال گڑھی کے پرائمری اسکول کے ہمارے استاد فضل اکبر بھی تھے۔

پڑھیے: فاٹا کے حل طلب مسائل اور حکومتی بے حسی

فضل اکبر استاد مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ فرض شناس بھی تھے۔ وہ 29 فروری 2008 کو سوات مینگورہ میں ڈی ایس پی جاوید اقبال کی نماز جنازہ کے لیے گئے تھے۔ جوں ہی نماز جنازہ کے لیے صفیں کھڑی ہوئیں، خودکش حملہ ہوا اور متعدد لوگ ہلاک ہو گئے۔ ہلاک شدگان میں فضل اکبر استاد بھی شامل تھے۔ فضل اکبر استاد کے 5 بچے ہیں جن میں 26 سال کے صدیق اکبر، 25 سال کے تنویر اکبر، 20سال کے باسط اکبر، 19 سال کی ایمن ناز اور 17 سال کے داؤد اکبر شامل ہیں۔گزشتہ 9 سال کے دوران ہمارے استاد کے بچوں پر کیا گزری ہے، اس بارے میں تنویر اکبر بتاتے ہیں کہ ان کے والد کی شہادت کے بعد حکومت کی جانب سے ان کو مالی معاونت فنڈ اور گروپ انشورنس کی مد میں 6 لاکھ 40 ہزار روپے ملے ہیں اور والد کی پنشن کے ماہانہ ان کو 13 ہزار روپے ملتے ہیں، لیکن اس کے حصول کے لیے ان کی کسی محکمے نے کوئی مدد نہیں کی۔تنویر بتاتے ہیں کہ یہ سب بھی ان کی بھاگ دوڑ کے باعث ملا ہے۔ تنویر کے مطابق انہوں نے خود گریجوئیشن کے ساتھ ساتھ پی ٹی سی اور سی ٹی بھی کی ہوئی ہے لیکن ان کو اپنے والد کے کوٹے پر استاد نہیں لگایا گیا اور یوں ان کی حق تلفی کی گئی، ہاں البتہ ان کے بڑے بھائی صدیق اکبرکو محکمہ تعلیم میں نائب قاصد کی نوکری دے کر حکومت نے جان چھڑالی۔ اس میں بھی متعلقہ حکام نے بڑے بھائی کو اپنے علاقے سے دور دوسرے گاؤں میں بھرتی کروا دیا۔تنویر بتاتے ہیں کہ گزشتہ چھے سات ماہ سے ان کی ماں کینسر کے عارضے میں مبتلا ہیں اور ان کا علاج جاری ہے۔ تنویر نے مزید بتایا کہ والد کو ہلاک ہوئے 9 سال ہو چکے ہیں، اس دوران انہوں نے کئی مشکلات کا سامنا کیا، لیکن اگر ان کے والد زندہ ہوتے تو آج یہ حالت ہرگز نہ ہوتی، اور ہم سب بہن بھائی اچھی تعلیم حاصل کرتے اور اچھے اداروں میں نوکریاں بھی ملتیں۔

پڑھیے: فاٹا میں مسلسل جنگ سے ذہنی امراض میں خطرناک اضافہ

دہشتگردی سے متاثر ہونے والے لاکھوں خاندانوں میں سے یہ کہانی صرف ایک خاندان کی ہے۔ یہاں میرا یہ مقصد بالکل بھی نہیں کہ پختون خاندانوں کا درد دہشتگردی کے باقی متاثرین سے زیادہ ہے، نہیں، بحیثیتِ انسان ہم سب کا درد اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ کسی دوسرے کا۔لیکن ہمیں لسانی و نسلی بنیادوں پر تفریق کرتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا ہم چند افراد کی غلطی کی سزا ایک پورے گروہ، پوری برادری اور پوری قوم کو دے کر کیا انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں؟کیا یہی کام امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ نہیں کر رہے؟ جس طرح وہ چند نام نہاد مسلمانوں کے دہشتگرد حملوں کے باعث تمام مسلمانوں کو دہشتگرد سمجھتے ہیں، تو کیا ہم پاکستان میں ایک دوسرے کے خلاف یہی رویہ نہیں اپنائے ہوئے؟ہر دہشتگرد حملے کے بعد دہشتگردی جلد ختم ہوگی، دہشتگردوں کو بہت جلد اپنے انجام تک پہنچایا جائے گا، دہشتگرد آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں، دہشتگردوں کا صفایا کر کے دم لیں گے، بہت جلد پاکستان امن کا گہوارہ ہوگا، دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں، یہ اور اس طرح کے بہت سے دعوے سن سن کر کان پک گئے لیکن دہشتگردی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ پختونوں میں بھی ہو سکتے ہیں، پنجابیوں میں بھی، سندھیوں اور بلوچوں میں بھی، مسلمانوں میں بھی ہو سکتے ہیں، ہندوؤں میں بھی اور عیسائیوں میں بھی۔مگر ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان اقوام اور مذاہب کے اکثریتی لوگ پرامن ہیں اور دہشتگردی کے حامی نہیں۔ پوری اقوام کو ذمہ دار ٹھہرانے سے ہم صرف دہشتگردوں کے عزائم کی تکمیل میں ان کے مددگار بنیں گے، دہشتگردی کے خاتمے میں نہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website