counter easy hit

انگیلا میرکل کا نیا معاہدہ!

تحریر: اکرام الدین

انگیلا میرکل چانسلر ہیلموٹ کو بل کے بعد پہلی مرتبہ “سیاسی جماعت “کرسچن ڈیمو کرینک یونین” کی نگرانی سرابرہ بنی تھیں انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب قریب سترہ برس ہو چکے ہیں جب کہ انہوں نے سن 2005 میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا انگیلا میرکل اس وقت اپنے اقتدار کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہیں جرمن چانسلر نے اپنے قدامت پسند حلیف جماعت کے ساتھ مہاجرین کیلئے جرمنی کے دروازے بند کرنے کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا ہے جرمن چانسلر میرکل کا اپنی حلیف جماعت سی ایس یو کے ساتھ پناہ گزینوں کے حوالے سے تازہ ترین معاہدہ ممکنہ طور پر آسٹریا کے سرحد کے ساتھ ایک نیا نظام قائم کرسکتا ہے یورپی یونین کی دیگر رکن ریاستوں جن میں رجسٹرد مہاجرین کو جنہیں ڈی پورٹ کیا جانا ہوگا جرمنی کی آسٹریا کے ساتھ سرحد قائم عبوری مراکز میں رکھا جائے گا اسے قبل کہ ایسے مہاجرین کو واپس ان کے آبائی ممالک میں واپس بیجھا جائے یورپی یونین کو ان ممالک سے بھی اس حوالے سے معاہدے کرنا ہوں گے تا ہم اگر یہ حکومتیں اپنے شہریوں کو واپس لینے سے انکار کر دیتی ہے تو پھر جرمن قدامت پسند جماعتیں آسٹریا کو قائل کرنے کی کوشش کریں گی کہ وہ ان مہاجرین کو قبول کر لے آسٹریا کا موقف ہے کہ نئے جرمن پلان سے متعلق برلن حکومت نے اس سے مشاورت نہیں کی اور اگر معاہدے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو پھر دیانا حکومت بھی اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے اقدامات اٹھانے کی مجاز ہو گی انگیلا میرکل نے جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے پناہ گزنیوں سے متعلق اپنی پالیسی کو زمین بوس ہونے سے بچالیا ہے۔ہورسٹ زیہوفر انگیلا میرکل کی مہاجرین کے حوالے سے پالیسی کے سخت ناقد ہیں ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ اگر اس حوالے سے جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ نہ صرف وزارت داخلہ کا قلمدان چھوڑ دیں گے بلکہ پارٹی کی سربراہی سے بھی مستفی ہو جائیں گے بالآخر دونوں رہنماوں کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پا گیا جس کی رد سے یورپی بلاک کے کسی دوسرے ملک میں پہلے سے پناہ کی درخواستیں دائر کر چکنے والے مہاجرین کو جرمنی آنے نہیں دیا جائے گا زیہوفر تارکین وطن کی ملک بدریوں کے عمل میں بھی تیزی لانا چاہتے ہیں جرمنی میں پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد 2015، اور 2016 کے مقابلے میں رواں برس خاطر خواہ طور پر کمی ہوئی ہے رواں برس جنوری اور مئی کے درمیان پہ تعداد 78،026 رہی جرمنی کی فراخ دلانا مہاجر پالیسی اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے اس جنگ میں ان طاقتوں کی جیت ہوئی جو تقسیم پر یقین رکھتی ہے وہ سیاستدان جیتے ہیں جو سرحدوں کا کنٹرول سخت بنانے اور شمالی افریقہ میں مہاجرین کے کیمپوں کے قیام کے زریعے مستقبل میں مہاجرین کیلئے بحیرہ روم کے خطرناک راستے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر دینا چاہتے ہیں گزشتہ تین برسوں سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل انسان دوست پناہ گزین پالیسوں کیلئے جدوجہد کرتی آئی ہیںاس دوارن ان سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں لیکن اب یورپ کے بدلتے ہوئے ماحول اپنے ہی ملک میں عوامیت پسندوں کو بڑھتی ہوئی حمایت اور اپنی ہی اتحادی ایک جماعت کی مخالفت کی وجہ سے وہ بھی نئی مشکل پالیسیاں متعارف کرانے پر مجبور ہو چکی ہے ان کی یہ پالیسی کہ ضرورت مندوں کی مدد کی جانا چاہیے تو ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی لیکن ان پر ابھی مزید دباو ڈالا جائے گا بات صرف باڑیں لگانے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ان پر امیگریشن پالیسیوں میں تبدیلی لانے اور افریقہ کے ساتھ تعاون بڑھانے کیلئے بھی دباو ڈالا جائے گا تا کہ وہاں کے مقامی باشندے اپنے گھروں میں ہی رہیں سرحدی چوکیاں اور باڑیں فی الحال تو یورپی حکومتوں کو بچالیں گی لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے پاکستان نے 1979،میں سودیت یونین کی فوجیوں کی آمد کے بعد جس طرح افغان مہاجرین کو کھلے دل سے قبول کیا وہ انسانیت دوستی اور مہمان نوازی کی اپنی مثال آپ ہے ایک وقت میں پاکستان قریب 60 لاکھ افغان مہاجرین کو میزبانی کر رہا تھا اب بھی پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی زمہ داریاں پوری کر رہا ہے افغانستان نے ہمیشہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کر رہا ہے یورپ کو مہاجرین پر زمین تنگ کرنے کی بجائے مہاجرت کے اسباب کو تلاش کرنا چاہیے مہاجرت کے بحران کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے جب تک اس سے جڑے اسباب کو ختم نہ کیا جائے مہاجرت کا ارادہ کرنے والوں کو حوصلہ شکنی کرنا ہے تو بین الاقوامی برادری کو مہاجرت زدہ ممالک کے ترقیاتی تعاون پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔