counter easy hit

نواز شریف یہ جنگ ہار چکے ہیں

ایک ہوتا ہے آئین۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس بھی ایک عدد آئین ہے جو مقدس اور مقدم ہے۔ اسی آئین کے اندر ایک شق باسٹھ نمبر کی ہے۔ یہ شق ریاست کے کسی بھی فرد کی انتخابی اہلیت سے متعلق ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق نمبر باسٹھ کو جنرل ضیاءالحق کی آمریت میں مشرف بہ اسلام کر دیا گیا۔ شق باسٹھ کی ذیلی شق ایک کے اندر مزید تین نکات شامل کیے گئے جو ڈی، ای اور ایف نکات کہلائے۔ ان میں سے ایف وہی مشہور زمانہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر کوئی بھی فرد صادق اور امین ہونے یا نہ ہونے کا حق دار بنتا ہے۔ پچھلے ایک برس میں آئین کی شق باسٹھ ون ایف تین مرتبہ آسمانی بجلی کی طرح بالترتیب نواز شریف، جہانگیر ترین اور خواجہ محمد آصف پر گری اور ان کے سیاسی کیریئر کو خاکستر کر گئی۔ یہ شق عمران خان پر بھی کڑکی تھی مگر ان پر گری نہیں اور اس طرح وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے عدالتی سند یافتہ صادق اور امین کی صورت میں سامنے آئے۔

جو لوگ اس شق کے تحت عدالت سے غیر صادق یعنی جھوٹے، غیر دیانت دار یعنی بے ایمان اور غیر امین یعنی خائن قرار پا جائیں وہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے رکن بننے کی اہلیت کھو بیٹھتے ہیں۔ نواز شریف، جہانگیر ترین اور خواجہ محمد آصف کو انتخابات کے لیے کاغذات نام زدگی جمع کرواتے وقت اپنے مکمل اثاثوں کو ظاہر نہ کرنے اور جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر آئین کی شق باسٹھ ون ایف کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر یہ بات بھی غلط نہیں کہ عدالتی سند یافتہ دروغ گو، بد دیانت اور خائن کی کسی بات پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

اسی تناظر میں جب ہم نواز شریف کے ڈان اخبار کے رپورٹر سیرل المیڈا کو دیئے گئے انٹرویو پر نظر ڈالیں تو جھوٹا، بددیانت اور خائن کے الفاظ ذہن میں گونجنے لگتے ہیں۔ نواز شریف پاکستان کی سیاست میں تقریباً چالیس برس سے متحرک ہیں۔ ان چالیس برسوں میں وہ تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے۔ اس کے علاوہ وہ صوبہ پنجاب کے وزیر خزانہ اور بعد ازاں وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ وہ کسی بھی حکومتی عہدے پر اپنی مدت پوری نہیں کر سکے۔ یہ غالباً ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

جب وہ تیسری مرتبہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہوئے تو ان سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر بہتر سیاست کریں گے اور اپنے تجربے سے ملک اور قوم کی راہنمائی کرتے ہوئے ملک اور قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ نواز شریف نے کردار تو ادا کیا مگر ملک اور قوم کی ترقی کی بجائے اپنی اور اپنے خاندان کی بے مثال ترقی میں۔

اس ترقی کا بھانڈہ اس وقت پھوٹا جب 3 اپریل 2016 کو پانامہ پیپر نامی بم پھٹا اور اس کے نتیجے میں نواز شریف اور ان کے بچوں کی جائیدادوں کے ہوش ربا حقائق سامنے آنا شروع ہوئے۔ ایک اچھا اور ایمان دار لیڈر مشکل وقت میں اپنے اعصاب پر قابو رکھتا ہے اور صورت حال کا بغور جائزہ لے کر بہترین فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ نواز شریف سے مگر پے درپے غلطیاں ہوتی چلی گئیں اور یہ غلطیاں ان کے لیے ایک گہرا گڑھا کھودتی چلی گئیں۔ نواز شریف اس گڑھے کے کنارے پر رقص کرتے رہے یہ سمجھے بغیر کہ ان کا پاؤں رپٹ گیا تو وہ اس گڑھے میں جا گریں گے اور پھر شاید انہیں دوبارہ باہر نکلنا نصیب نہ ہو۔

اور پھر ان کا پاؤں رپٹ گیا۔ وہ گڑھے میں جا گرے۔ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے اثاثوں اور اپنی معلوم آمدنی کے درمیان توازن نہ دکھا سکے۔ ان کی اندرون ملک اور بیرون ملک مہنگی ترین جائیدادیں سامنے آئیں تو قوم نے اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔ نواز شریف کے پاس اس کا صرف یہ جواب تھا کہ “اگر میرے اثاثے میری آمدن سے زائد ہیں تو بھئی تمہیں کیا”۔ نواز شریف صاحب ہمیں ہے اور ہمیں بہت زیادہ ہے۔ ہم عوام ہیں۔ آپ ہمارے ووٹوں سے منتخب ہو کر حکومتی عہدوں پر پہنچے ہیں۔ ہم یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ آپ نے اتنے اثاثے کیسے بنا لیے جب کہ آپ کی قوم کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ان کی جان اور مال کی حفاظت آپ کی حکومت کی ذمہ داری ہے اور آپ کی حکومت یہ ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

جب نواز شریف کو ان کی دروغ گوئی اور بد دیانتی کی بنیاد پر عدالت سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے تاحیات نااہل قرار دیا گیا تو بجائے اس کے کہ وہ ٹھنڈے دل سے غور کرتے اور عدالت میں قانونی جنگ پر توجہ کرتے، انہوں نے انتہائی کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے پاکستان کی فوج اور پھر عدلیہ کو اپنے نشانے پر رکھا اور مسلسل دشنام طرازی شروع کر دی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے ججوں پر بغض سے بھرے ہونے کا الزام چسپاں کیا۔ انہوں نے خلائی مخلوق کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ان کی جنگ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔

وہ بزعم خود ایک نظریاتی اور انقلابی انسان بنے ہوئے اپنے ہی ملک کے اداروں پر حملہ آور ہیں۔ ان کے پیرو کبھی انہیں سموچا نظریہ قرار دیتے ہیں تو کبھی انہیں ایک نشہ قرار دیتے ہیں۔ اس کالم کے توسط سے یہ گذارش کر دوں کہ گھٹیا قسم کا نشہ برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ اور یہی بربادی انہوں نے اپنے تازہ انٹرویو میں مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی اور عالمی جنگ کا صف اول کا اتحادی بننے کے بعد دہشت گردی نے پاکستان کا رخ کیا اور قہر خداوندی کی طرح وطن عزیز پر ٹوٹی۔ پاکستان کی فوج مسلسل اپنی سرحدوں کے اندر دنیا کی مشکل ترین جنگ میں مصروف ہے اور نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کر رہی ہے۔ ان کامیابیوں پر تلملاتے ہوئے امریکہ، بھارت اور افغانستان مسلسل پاک فوج کے خلاف زہریلا پروپیگینڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ کسی طرح پاکستان کو بھی ایک دہشت گرد ریاست قرار دے دیں۔

ایسے میں نواز شریف نے ملتان میں اپنے جلسے سے پہلے خصوصی طور پر سیرل المیڈا کو ملتان بلوا کر یہ انٹرویو دیا۔ سیرل المیڈا نے سوال کیا کہ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کو نکالے جانے کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ تو جواب میں سیرل المیڈا نے لکھا کہ نواز شریف نے اس بات کا براہ راست جواب نہیں دیا بلکہ بات کو خارجہ پالیسی اور داخلی امور کی طرف موڑ دیا اور کہا “ہم نے خود کو دنیا میں تنہا کر لیا ہے۔ قربانیاں پیش کرنے کے بعد ہمارا مؤقف دنیا میں تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ افغانستان کا بیانیہ تسلیم کیا جا رہا ہے مگر ہمارا نہیں۔ ہمیں اس کو دیکھنا چاہیئے۔” نیز کہا کہ “پاکستان میں مسلح تنطیمیں سرگرم ہیں۔ آپ ان کو نان۔اسٹیٹ ایکٹر کہ لیں۔ کیا ہمیں انہیں اجازت دینی چاہیئے کہ وہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کر دیں۔ مجھے یہ سمجھائیں۔ ہم ان کا مقدمہ کیوں نہیں مکمل کر سکتے؟” اور پھر کہا کہ “یہ ناقابل قبول ہے۔ ہم اسی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ صدر پوٹن نے یہ کہا ہے۔ صدر شی نے بھی یہی کہا ہے۔”

نواز شریف نے واضح اور صاف الفاظ میں پاکستان کے مخالف ملکوں کے اس مؤقف کی تائید کر دی ہے جو وہ ایک عرصے سے پاکستان کے خلاف اپنائے ہوئے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور حکومت کا دہشت گردی پر کسی قسم کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ نواز شریف نے بین السطور جو باتیں کی ہیں وہ انتہائی خطرناک ہیں اور ان کا براہ راست تعلق ملکی سالمیت سے بنتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک ایسا شخص جو تین مرتبہ ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہو، وہ اپنے خلاف چلنے والے بدعنوانی کے مقدمات پر اثر انداز ہونے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے نہیں ہچکچا رہا۔ اس کو کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ (چاہے وہ حقیقت کے برعکس ہی کیوں نہ ہوں) پاکستان کے حق یا مخالفت میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نےاس انٹرویو پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف سے منسوب الفاظ کو توڑمروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ نواز شریف ایسا کس طرح کہ سکتے ہیں۔ نیز انہوں نے واضح طور سے کہا کہ نواز شریف سے منسوب الفاظ مسلم لیگ ن کی پارٹی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتے۔

نواز شریف کے اس بیان کے بعد پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم کی صدارت میں ہوا جس میں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں متفقہ طور پر نواز شریف سے منسوب بیان کی واضح الفاظ میں تردید کی گئی اور ان کو قابل مذمت قرار دیا گیا۔ پریس ریلیز میں یہ بات لکھی گئی کہ نواز شریف کی جانب سے دیا جانے والا بیان چاہے وہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر ہو یا کسی بغض کی بنیاد پر، مکمل طور پر گمراہ کن، غلط اور قابل مذمت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی نواز شریف سے ملاقات ہوئی اور اس کے بعد وزیر اعظم نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ اور پوری مسلم لیگ ن نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ کہ نواز شریف کے بیان کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف نواز شریف اور مریم نواز اس بیان پر قائم ہیں اور اصرار کر رہے ہیں کہ نواز شریف نے کوئی غلط بات نہیں کی۔

اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ نواز شریف اب یہ جنگ ہار چکے ہیں۔ وہ واضح طور پر ریاستی اداروں کے مدمقابل کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی جماعت کے اراکین بددلی کا شکار ہیں اور رفتہ رفتہ مسلم لیگ ن کو چھوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے دفاع میں ان کی اپنی جماعت یکسو اور ہم آواز نہیں ہے۔ نواز شریف پر غداری کے مقدمات قائم کرنے کے لیے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ نیز مایوسی ہی مایوسی ہے۔ احتساب عدالت میں جاری مقدمات کا فیصلہ بھی اب قریب ہے اور ممکنہ طور پر نواز شریف مجرم قرار دیئے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے طویل ترین باب کا ناخوشگوار خاتمہ ہونا ایک المیہ ہے