counter easy hit

نواز شریف اور مریم نواز کا اڈیالہ جیل سے نکلنے کا خواب چکنا چور ۔۔۔۔ عدالت سے بڑی بریکنگ نیوز آ گئی

لاہور;؛ہائیکورٹ کا نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا کیخلاف درخواست کی سماعت کرنے والا بنچ ٹوٹ گیا۔تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے شریف فیملی کی سزاﺅں کیخلاف درخواست کی سماعت کی، درخواست گزار نے عدالت کے رو برو موقف اختیار کیا کہ نیب کا قانون ختم ہو چکا

سارا ٹرائل غیر قانونی ہے۔جسٹس شمس محمود مرزا نے شریف فیملی کی سزاﺅں کیخلاف کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ذاتی وجوہات کی بنا پرکیس نہیں سکتا۔جسٹس شمس محمود مرزا کی معذرت سے 3 رکنی فل بنچ ٹوٹ گیا،اس پر نیابنچ تشکیل دینے کیلئے فائلیں چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کوارسال کرد ی گئیں۔واضح رہے کہ پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی قید کی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت منگل کو کی جائے گی۔یہ اپیلیں مجرمان کے وکلا خواجہ حارث اور امجد پرویز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی تھیں۔احتساب عدالت نے نواز شریف کو دو مختلف شیڈول کے تحت دس برس اور ایک برس، مریم نواز کو سات برس اور ایک برس جبکہ ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کو ایک برس قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔اس سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے دس دن کی مہلت دی گئی تھی اور پیر کو اس مہلت کا آخری دن تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی نے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر

مشتمل ڈویژن بینچ تشکیل دیا ہے جو منگل کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی اپیلوں کی سماعت کرے گا۔ان دونوں ججز کا شمار اسلام آباد ہائی کورٹ کے سب سے جونیئرججوں میں ہوتا ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی اس وقت اسلام باد میں موجود ہیں اور مختلف مقدمات کی سماعت بھی کر رہے ہیں۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے سارے ہائی کورٹس کی یہ روایت رہی ہے کہ اگر کوئی سینیئر جج موجود ہو تو اسے ڈویژن بینچ کا حصہ بنایا جاتا ہے تاہم اگر وہ سینیئر جج ڈویژن بینچ کا حصہ بننے سے معذوری ظاہر کردے تو پھر جونیئر جج کو بینچ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔نامہ نگار کے مطابق عدالت میں دائر کی گئی اپیل میں کہا گیا ہے کہ احتساب عدالت نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے اور یہ فیصلہ عجلت میں دیا گیا ہے۔اپیل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ احتساب عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ کی طرف سے ایسے کوئی بھی شواہد پیش نہیں کیے گئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ ایون فیلڈ کی فلیٹس نواز شریف کی ملکیت ہیں۔اس اپیل میں یہ موقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ استغاثہ کی طرف سے کوئی گواہ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا جو اس بات کی تصدیق کرسکے کہ لندن فلیٹس نواز شریف کی ملکیت ہیں۔اپیل میں مزید کہا گیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے اعتراف کیا تھا کہ دوسرے ملکوں سے کی گئی باہمی قانونی مشاورت کا کوئی جواب نہیں ملا اور جے آئی ٹی نے سربراہ نے مفروضوں پر بات کی جسے عدالت نے تسلیم کرلیا۔